آج کا انسان جس ماحول میں سانس لے رہا ہے اس نے اس کی شخصیت کو لخت لخت کر کے ایسے اعصابی تناؤ میں مبتلا کیا کہ انسان خود اپنا آسیب بن کر رہ گیا جس کے نتیجے میں جب اس کا اپنی ذات پر سے ایمان اٹھ گیا تو دوسروں سے ابلاغ ختم ہو گیا۔ یوں لوگ پرچھائیوں میں تبدیل ہو گئے اور دیا سایوں کی بستی بن گئی۔چنانچہ آج کا انسان اپنے سایہ کو بھی دوسروں کا سایہ سمجھتے ہوئے اس سے لرزاں ہے۔ابن العربی نے جہنم کو ایک سرد جگہ قرار دیا تھا۔ جہاں ہر آنے والا اپنی آگ خود ساتھ لاتا ہے اس کے برعکس سارتر کے خیال میں جہنم دوسرے لوگ ہیں جبکہ فرائڈ کے خیال میں جہنم جنس ہے جس کی آگ میں انسان صدا جلتا رہتا ہے۔ یہ تین نظریات اس جبر کے غماز ہیں جس سے کسی نہ کسی طور سے انسان کو عہدہ بر آ ہونا پڑتا ہے۔ اور جدید انسان کا المیہ یہ ہے کہ اسے تینوں جہنموں کی آگ میں جلنا پڑ رہا ہے اور اسی لیے ذہنی عوارض میں مبتلا مریضوں اور خود کشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص اسی حوالے سے ہے جس میں تفصیل سے اسی موضوع کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ یہ کتاب طویل اور مختصر مضامین کا مجموعہ ہے...