امت مسلمہ کے اندر مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے شرک و بدعت نے راہ پائی ہے ۔ یہ ایک المیہ ہے کہ انسانیت اپنے آغاز آفرینش سے ہی راہ ہدایت کو گم کر بیٹھی تھی ۔ لیکن رحمت الہی نے کسی لمحے بھی اسے اپنی توجہ سے دور نہیں رکھا ۔ اور مختلف اوقات میں اس کی طرف انبیاء ورسل بھیجے ۔ حتی کہ آخری نبی و رسول آنحضرتﷺ کے بعد لوگ پھر شرک و بدعات کے دلدل میں پھنس گئے ۔ اب اس کے بعد کوئی نبی یا رسول تو نہیں آنا تھا تاہم اللہ تعالی نے ایک دوسری سنت جاری فرمائی کہ ہرصدی کے بعد ایک مصلح اور مجدد اس امت کے اندر پیدا فرمانے کا وعدہ کیا ۔ ایسے ہی انیسویں صدی میں عالم عرب کے اندر شیخ محمد بن عبد الوہاب آئے ۔ انہوں نے اس وقت کی مروج بدعات و خرافات اور کفر وشرک صورتوں کو ختم کیا ۔ عین انہی لمحات میں ہند میں شاہ ولی اللہ اور شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے تربیت یافتگان سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ سے وہی کام لیا جو عرب میں محمد بن عبدالوہاب سے لیا تھا ۔ ان دونوں تحریکوں کا یہ دعوتی و منہجی اشتراک کیا اتفاقی تھا یا بقاعدہ ایک منصوبے کے تحت تھا؟ زیر نظر کتاب اس طرح کے دیگر...