مسلمانوں کی فرقہ بندیوں کا افسانہ بڑا طویل اورالمناک ہے ۔مسلمان پہلے صرف ایک امت تھے ۔ پہلے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہہ کر ایک شخص مسلمان ہوسکتا تھا لیکن اب اس کلمہ کے اقرار کے ساتھ اسے حنفی یا شافعی یا مالکی یا حنبلی بھی ہونے کا اقرار کرنا ضروری ہوگیا ہے ۔ضرورت اس امر کی مسلمانوں کو اس تقلیدی گروہ بندی سے نجات دلائی جائےاور انہیں براہ راست کتاب وسنت کی تعلیمات پر عمل کرنے کی دعوت دی جائے ۔مسلک اہل حدیث در اصل مسلمانوں کوکتاب وسنت کی بنیاد پر اتحاد کی ایک حقیقی دعوت پیش کرنےوالا مسلک ہے ۔ اہل حدیث کے لغوی معنیٰ حدیث والے اوراس سے مراد وہ افراد ہیں جن کے لیل ونہار،شب وروز،محض قرآن وسنت کےتعلق میں بسر ہوں او رجن کا کوئی قول وفعل اور علم، طور طریقہ اور رسم ورواج قرآن وحدیث سے الگ نہ ہو۔گویامسلک اہل حدیث سے مراد وہ دستورِ حیات ہےجو صرف قرآن وحدیث سے عبارت ،جس پر رسول اللہﷺ کی مہرثبت ہو۔ زیر تبصرہ رسالہ ’’تعارف اہل حدیث ‘‘ مولانا حافظ عبدالحمید ازہر (فاضل مدینہ یونیورسٹی) کی کاوش ہے۔انہوں نے کتاب وسنت اور تاریخی شواہد کی روشن...
صبر کے معنی ہیں کسی خوشی ، مُصیبت ، غم اور پریشانی وغیرہ کے وقت میں خود کو قابو میں رکھنا اور خلاف شریعت کاموں سے بچنا ہے۔ صبرکی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ قرآن پاک میں ستر بار اس کاذکر آیا ہے۔ہم نے اپنی زندگیوں میں شایدصبرکااستعمال ترک کر دیا ہے ۔ اس لئے ہم فرسٹریشن،ڈیپریشن یا ٹینشن جیسی مہلک امراض میں مبتلاہورہے ہیں۔ حالاں کہ صبرکااوراس کائناتی اور دنیاوی نظام کاآپس میں بڑا گہراتعلق ہے۔کائنات کے ہر عمل میں صبرکی آمیزش ہے۔ مثلاًچاندستارے اپنے اپنے مدار میں رہتے ہوئے اپناسفرطے کر تے ہیں اوررات کو دن اوردن کورات میںبدلتے ہیں ۔ا یک پودامکمل درخت راتوں رات نہیں بن جاتا ۔آہستہ آہستہ پروان چڑھتا ہے۔ پہلے پھول اورپھرپھل آتے ہیں ۔ یہ کائناتی ربط ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں بھی اسے شامل کر کے زندگی میں ربط پیداکریں۔اگرہم دنیاوی تناظرمیں بھی دیکھیں توکسی بھی منزل کوپانے کے لئے ہرانسان کوبہرصورت صبرکی سیڑھی پر چڑھنا پڑتا ہے۔ا یک ڈاکٹرکو بھی اپنی ڈگری لینے کے لئے پانچ سال تک انتظارکرنا پڑتا ہے۔گویا یہ صبرہی ہے کہ جو منزل بہ منزل اسے ای...