علم اسماء الرجال علم راویانِ حدیث کی سوانحِ عمری اورتاریخ کا علم ہے، اس میں راویوں کے نام، حسب ونسب، قوم ووطن، علم وفضل، دیانت وتقویٰ، ذکاوت وحفظ، قوت وضعف اور ان کی ولادت وغیرہ کا بیان ہوتا ہے، بغیراس علم کے حدیث کی جانچ مشکل ہے، اس کے ذریعہ ائمہ حدیث نے مراتب روات اور احادیث کی قوت وضعف کا پتہ لگایاہےحدیث کے راوی جب تک صحابہ کرام تھے اس فن کی کوئی ضرورت نہ تھی، وہ سب کے سب عادل، انصاف پسند اور محتاط تھے ۔کبارِتابعین بھی اپنے علم وتقویٰ کی روشنی میں ہرجگہ لائق قبول سمجھے جاتے تھے، جب فتنے پھیلے اور بدعات شروع ہوئیں تو ضرورت محسوس ہوئی کہ راویوں کی جانچ پڑتال کی جائے۔ تو ائمہ محدثین نے علم اسماء الرجال کو شروع کیا ۔سو حدیث کے لیے جس طرح متن کو جاننا ضروری ہے، سند کو پہچاننا بھی ضروری ٹھہرا کہ اسماء الرجال کے علم کے بغیر علم حدیث میں کوئی شخص کامیاب نہیں ہوسکتا، امام علی بن المدینی (۲۳۴ھ) کہتے ہیں:معانی حدیث میں غور کرنا نصف علم ہے تو معرفت رجال بھی نصف علم ہے۔ (مقدمہ خلاصہ تہذیب الکمال، فصل...
علم اسماء الرجال علم راویانِ حدیث کی سوانحِ عمری اورتاریخ کا علم ہے، اس میں راویوں کے نام، حسب ونسب، قوم ووطن، علم وفضل، دیانت وتقویٰ، ذکاوت وحفظ، قوت وضعف اور ان کی ولادت وغیرہ کا بیان ہوتا ہے، بغیراس علم کے حدیث کی جانچ مشکل ہے، اس کے ذریعہ ائمہ حدیث نے مراتب روات اور احادیث کی قوت وضعف کا پتہ لگایاہےحدیث کے راوی جب تک صحابہ کرام تھے اس فن کی کوئی ضرورت نہ تھی، وہ سب کے سب عادل، انصاف پسند اور محتاط تھے ۔کبارِتابعین بھی اپنے علم وتقویٰ کی روشنی میں ہرجگہ لائق قبول سمجھے جاتے تھے، جب فتنے پھیلے اور بدعات شروع ہوئیں تو ضرورت محسوس ہوئی کہ راویوں کی جانچ پڑتال کی جائے۔ تو ائمہ محدثین نے علم اسماء الرجال کو شروع کیا ۔سو حدیث کے لیے جس طرح متن کو جاننا ضروری ہے، سند کو پہچاننا بھی ضروری ٹھہرا کہ اسماء الرجال کے علم کے بغیر علم حدیث میں کوئی شخص کامیاب نہیں ہوسکتا، امام علی بن المدینی (۲۳۴ھ) کہتے ہیں:معانی حدیث میں غور کرنا نصف علم ہے تو معرفت رجال بھی نصف علم ہے۔ (مقدمہ خلاصہ تہذیب الکمال، فصل...