اس روئے ارض پر انسانی ہدایت کے لیے حق تعالیٰ نے جن برگزیدہ بندوں کو منتخب فرمایا ہم انہیں انبیاء ورسل کی مقدس اصلاح سے یاد رکرتے ہیں اس کائنات کے انسانِ اول اور پیغمبرِاول ایک ہی شخصیت حضرت آدم کی صورت میں فریضۂ ہدایت کےلیے مبعوث ہوئے ۔ اور پھر یہ کاروانِ رسالت مختلف صدیوں اور مختلف علاقوں میں انسانی ہدایت کے فریضے ادا کرتے ہوئے پاکیزہ سیرتوں کی ایک کہکشاں ہمارے سامنے منور کردیتاہے ۔درخشندگی اور تابندگی کے اس ماحول میں ایک شخصیت خورشید جہاں تاب کی صورت میں زمانےاور زمین کی ظلمتوں کو مٹانے اورانسان کےلیے ہدایت کا آخری پیغام لے کر مبعوث ہوئی جسے محمد رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں ۔ آج انسانیت کےپاس آسمانی ہدایت کا یہی ایک نمونہ باقی ہے۔ جسے قرآن مجید نےاسوۂ حسنہ قراردیا اور اس اسوۂ حسنہ کےحامل کی سیرت سراج منیر بن کر ظلمت کدۂ عالم میں روشنی پھیلارہی ہے ۔گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل ﷺ کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں ۔اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کےلیےمعرض وجود میں آئے ۔یہ سلسلۂ خیر ہنوز روز اول کی طرح جاری وساری ہے ۔سیرت النبی ﷺ کی ابتدائی کتب عربی زبان میں لکھی گئیں پھر فارسی اور دیگرزبانوں میں یہ بابِ سعادت کھلا ۔ مگر اس ضمن میں جو ذخیرۂ سیرت اردوو زبان میں لکھا اور پیش کیا گیا اس کی مثال اور نظیر عربی کےعلاوہ کسی دوسری زبان میں دکھائی نہیں دیتی۔اردو زبان کی بعض امہات الکتب ایسی ہیں کہ جن کی نظیر خود عربی زبان کے ذخیرے میں مفقود ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’ تعلیمات نبوی اور آج کے زندہ مسائل‘‘ ڈاکٹر سید عزیز الرحمن کے مختلف موضوعاتِ سیرت پر ان سات مقالات کا مجموعہ ہے جو انہوں نے 1996ء سے 2004ء کے عرصے میں وزارت ِمذہی امور اور حکومت ِپاکستان اسلام آباد کےزیر اہتمام سالانہ قومی سیرت النبی ﷺ کانفرسوں میں پیش کیے اور انہیں سیرت ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ان میں مقالات میں سیرت کے سوانحی پہلوؤں کی بجائے یا دلائل وشمائل جیسے ذکر کے بغیر تعلیمات ِ سیرت کوپیش کیا گیا ہے اور یہ وہ موضوعات میں جو عصر حاضر کےابھرتے ہوئے مسائل ومشکلات سے تعلق رکھتےہیں۔ بظاہر یہ سات مقالات ِسیرت مختلف موضوعات پر لکھے گئے ہیں مگر ان سب میں ایک مرکزی وحدت موجود ہےکہ کس طر ح ایک اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست تعلیمات نبوی اور اسوۂ رسول ﷺکی بنیاد پراپنی انفرادی اوراجتماعی تربیت کاسامان فراہم کرسکتے ہیں۔صاحب کتاب سید عزیز الرحمن ایک علمی اور دینی خاندان کے چشم وچراغ ہیں ۔ ان کے خاندان میں علم ومعرفت اور تزکیہ وسلوک کی ایک محکم روایت موجود رہی ہے ، ان کےوالدگرامی سید فضل الرحمن خود ایک نامور عالم دین اور محقق شہیر ہیں۔سید عزیز الرحمن ’’السیرۃ عالمی‘‘ کے عنوان سے ایک ششماہی جریدہ سیرت کےحوالے سے نکال رہے ہیں جوبرصغیر میں اردو زبان کے حوالے سے اپنی نظیر اور اپنی مثال آ پ ہے ۔موصوف نےخطبات نبویﷺ کے موضوع پرتحقیقی کام کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنف کے علم وعمل میں اضافہ فرمائے اورسیرت النبیﷺکے حوالے سے ان کی کاوشوں کوقبول فرمائے (آمین)(م۔ا)
عناوین |
|
صفحہ نمبر |
انتساب |
|
15 |
پیش لفظ |
|
17 |
مقدمہ |
|
19 |
اسوہ حسنہ۔ انسانیت کا مستقبل |
|
23 |
تعارف |
|
28 |
پیش گفتار |
|
34 |
تعمیر شخصیت و فلاح انسانیت، اطاعت رسول ﷺاور سیرت طیبہ کی روشنی میں |
|
37 |
اطاعت رسول ﷺ کی ضرورت و اہمیت |
|
39 |
اسوہ رسول اللہ ﷺ کاتاریخی پہلو |
|
42 |
تمام کمالات کی جامع شخصیت |
|
44 |
حیات طیبہ کی جامعیت |
|
45 |
اسوۂ رسول ﷺ کی عملیت |
|
46 |
تعمیر شخصیت |
|
48 |
علم |
|
50 |
تزکیہ نفس |
|
56 |
اخلاق |
|
57 |
اخوت و اتحاد |
|
63 |
صدق وامانت |
|
66 |
عفو و درگزر |
|
69 |
فلاح انسانیت |
|
71 |
اجتماعیت |
|
73 |
مشاورت |
|
75 |
تعیش پسندی کی ممانعت |
|
76 |
انسداد رشوت |
|
77 |
نظام زکوۃ |
|
77 |
مساوات و اعتدال |
|
80 |
عدل و انصاف |
|
84 |
جزا و سزا |
|
86 |
صبر و استقامت |
|
89 |
فلاح عالم |
|
91 |
مسلمان کےحقوق |
|
92 |
والدین کےحقوق |
|
93 |
اولاد کے حقوق |
|
94 |
عورتوں کےحقوق |
|
95 |
ہمسائے کےحقوق |
|
96 |
مہمان کےحقوق |
|
96 |
مزدوروں کےحقوق |
|
97 |
یتیموں کےحقوق |
|
97 |
خادموں کےحقوق |
|
98 |
حاجت مندوں کےحقوق |
|
99 |
مردوں کےحقوق |
|
99 |
حیوانوں کےحقوق |
|
100 |
خلاصہ کلام |
|
102 |
استحکام پاکستان کے لیے بہترین رہنمائی سیرت طیبہ سےحاصل ہو سکتی ہے |
|
103 |
استحکام کیا ہے ؟ |
|
106 |
استحکام کی ضرورت و اہمیت |
|
107 |
استحکام کے لیے سیرت طیبہ سےراہنمائی |
|
109 |
اسلام کا نظام حکومت |
|
111 |
اسلامی نظام حکومت کی اساس |
|
113 |
حکومت ، نعمت خداوندی |
|
114 |
خلافت یا بادشاہت |
|
116 |
امیر ریاست کے فرائض |
|
117 |
اعضائےحکومت |
|
119 |
مقننہ |
|
119 |
عاملہ |
|
121 |
عدلیہ |
|
122 |
استحکام حکومت |
|
122 |
داخلی عوامل |
|
123 |
تعلیم |
|
124 |
اسلام میں تعلیم کاآغام |
|
124 |
مفت تعلیم |
|
125 |
لازمی تعلیم |
|
125 |
خواتین کی تعلیم |
|
126 |
باہمی اتحاد اور تنازعات سے اجتناب |
|
127 |
نظام عدل وانصاف |
|
130 |
انسداد جرائم |
|
134 |
ملکی دفاع |
|
137 |
باغیوں کے خلاف جہاد |
|
138 |
جاسوسوں کی سرکوبی |
|
139 |
جہاد، اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے |
|
140 |
مساوات |
|
142 |
علاقائی عصبیت |
|
144 |
حدود و تعزیرات |
|
146 |
انسداد رشوت |
|
148 |
اقلیتوں سےسلوک |
|
150 |
معاشی نظام |
|
155 |
خارجہ امور |
|
158 |
خلاصہ کلام |
|
161 |
عدم برداشت کا قومی اور بین الاقوامی رجحان اور تعلیمات نبویﷺ |
|
163 |
تقابلی مطالعہ کی ضرورت |
|
169 |
برداشت و تحمل کی تشریح |
|
170 |
تحمل و برداشت کاحکم قرآن حکیم میں |
|
171 |
آنحضرتﷺ اور برداشت و تحمل |
|
173 |
تحمل و برداشت کے سلسلے میں آپﷺ کے اقدامات کاپس منظر |
|
175 |
مخالفین سے سلوک ،مختلف مذاہب اور اقوام کی تعلیمات کا تقابلی مطالعہ |
|
179 |
ہندو تعلیمات |
|
179 |
یہودیت |
|
181 |
انگریز |
|
181 |
تعلیمات نبوی ﷺ |
|
183 |
مخالفین سے سلوک ، عملی اقدامات کا تقابلی مطالعہ |
|
185 |
ہندومت اور برداشت و تحمل |
|
186 |
یہودیت اورعدم برداشت |
|
190 |
عیسائیت اور عدم برداشت |
|
191 |
انگریز اور برداشت وتحمل |
|
193 |
امریکہ ،اور برداشت و تحمل |
|
195 |
آنحضرت ﷺ اور برداشت و تحمل |
|
197 |
بد دعا کے موقع پر بھی دعا |
|
198 |
قحط کےموقع پر مدد |
|
198 |
فتح مکہ ، قوت برداشت کا بےمثال مظاہرہ |
|
199 |
آنحضرتﷺ کا برداشت وتحمل، غیر مسلم مفکرین کی نظر میں |
|
200 |
خلاصہ کلام |
|
203 |
بے لاگ احتساب سیرت طیبہ کی روشنی میں |
|
205 |
احتساب کی مفصل تشریح |
|
210 |
لغوی معنیٰ |
|
210 |
موجودہ مفہوم |
|
211 |
موجودہ دور میں احتساب کی ضرورت |
|
212 |
احتساب کےاجزائے ترکیبی |
|
214 |
عدل |
|
214 |
شورائیت کےحکم پر عمل |
|
217 |
منصفانہ قوانین کا اجراء |
|
219 |
قوانین پر بلا تخصیص عمل در آمد |
|
220 |
اہل ودیانت دار اہل کاروں کا تقرر |
|
221 |
اقسام احتساب |
|
223 |
خود احتسابی |
|
225 |
اجتماعی احتساب |
|
228 |
اجتماعی احتساب کےمختلف پہلو |
|
229 |
حکمرانوں کا احتساب |
|
229 |
نوکر شاہی کا احتساب |
|
233 |
قانون نافذ کرنےوالے اداروں کا احتساب |
|
235 |
نظام محصولات کااحتساب |
|
236 |
این جی اوز کا احتساب |
|
238 |
معاشی معاملات کا احتساب |
|
240 |
احتساب کی درخشاں مثالیں |
|
242 |
اختتام |
|
244 |