یہ بات عزل سے چلی آرہی ہے کہ دین کی اشاعت کے لیے بھیجے جانے والے انبیاء ورسل سے لے کر صحابہ وتابعین اور تبع تابیعین ومحدثین عظام اور علماء حق نے پوری دیانت داری سے اشاعت دین میں عمریں بسر کیں ۔مگر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حق وباطل کی معرکہ آرائی شروع دن سے لے کر اب تک بدقسمتی سے جاری ہے ،ہمارے باپ حضرت آد ؑکو جب خداواحد نے اپناخلیفہ بنا کر بھیجناچاہا تو شیطان کو حکم دیا کہ سجدہ کرو لیکن اس نے اپنی افضلیت ظاہر کرتے ہوئے انکار کر دیا جس کی پاداش میں اسے تاقیامت دہدکار دیا گیا -اسی طرح حضرت نوح کی ساڑھے نو سوسال وعظ کے باوجود اپنا بیٹا انکاری رہا اور مخالفت میں غرق ہو گیا۔حضرت ابراہیم ؑ نے مشرک باپ کو دعوت اسلام اور اللہ کی وحدانیت کی دعوت دی تو گھر سے نکال دیاگیا۔عیسیٰ نے یہودیوں کو دعوت دی تو انہوں نے سولی دینے کی ناپاک جسارت کی مگر اللہ نے حفاظت کاسامان کیا۔ جب یہ سلسلہ جس کی آخری کڑی‘ خاتم النبیّین ﷺ ہیں مخاطبین مشرکین مکہ نے آپکو پاگل اور مجنوں کہا گیا ،کبھی پتھروں کی بارش کی گئی ‘کبھی مکہ کی گلیوں میں گھسیٹا گیا‘ توکبھی طائف کی وادیوں میں لہولہان کیا گیا مگر خدائی پیغام پہنچانے میں تمام قوت صرف کی ‘عرب کے جاہلوں کو حلقہ اسلام میں داخل کیا اور معاشرے کو امن وایمان اور عدل وانصاف کاگہوارہ بنادیا-عہدرسالت ماٰب ،خاتم النبیّین محمدالرسولﷺ میں ہی اسلام نے پوری دعوتی اور جہادی قوت کے ساتھ مصر وحجاز کی سرزمین میں تہلکہ مچادیا ،قیصر وقصریٰ کے تخت وتاج میں زلزلہ بپا کردیا ۔دعوتی خطوط سلاطین باطلہ تک پہنچائے ، اسلام اپنےپورے وقار سے آگے بڑھتاہوا مشرق ومغرب میں انقلاب پیداکرتا گیا ، یورپ کے ایوانوں میں دعوتی دستک دی ‘جب بھی خداتعالیٰ کی وحدانیت کااعلان ہواتو کفر پوری قوت صرف کرنے کے باوجود نامراد ہی لوٹا ‘جب نبی آخر الزمان پر دین مکمل ہواتو خاتم النبیّین کاسر ٹیفکیٹ دیا گیاتو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا‘مگر کذاب بہت آئیں گے تو ان کاکام تمام کرنا ۔جب آپ مالک ارض وسماء سے جاملے تو پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر ؒ نے منکرین زکوٰۃ اور جھوٹے نبوت کے مدعیان کاسامناکرکے انہیں نیست ونابود کیا ۔اسی طرح جب بھی کسی نے شان رسالت کی توہین کی تو اللہ تعالیٰ نے سرکوبی اور فتنہ کاقلع قمع کے لیے اہل حق میں سے کچھ لوگ پیداکیے جن میں سے مولانا ابو الوفاءثناء اللہ امرتسری ؒ بھی ہیں جب برطانوی سامراج نے برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت کاسورج ہمیشہ کے لیے غروب کر دیاتو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جیسے علماء نے باطل عقائد کے خلاف تحریر وتقریر کے ذریعے جہاد کیا ۔شہیدین نے باطل کی سرکوبی کے لیے تحریک مجاہدین کوکھڑا کیا اور حق وباطل کے معرکے میں مصروف ہوگئے ۔جب انگریز نے دیکھاکہ :مسلمانوں کو اسطرح کمزور نہیں کیا جاسکتا تو نام نہاد مسلمان مرزاغلام احمد قادیانی حنفی کو تیار کیا جو بظاہر مسلمان تھامگر حقیقت میں مسلمانوں کادشمن بن کر سامنے آیاتاریخ شاہد ہے کہ اسلام اپنوں کے ہاتھ سےہی ہمیشہ مغلوب اور کمزور ہواہے ۔جب مرزا نے کفریہ عقائد ،الحاد اور شرک کالبادہ اوڑھ کر اسلام کو پیش کیا‘ تو مسلمانوں کے عقائد میں خرافات وبدعات نے گھر کر لیااسطرح مسلمان حق بات سے دور ہوتے گئے دوسری طرف مرزا غلام احمد قادیانی نے جہاد کو اسلام سے نکالنے کے لیے مذموم کوششیں کیں اور جہاد کو دہشت گردی اور غیر شرعی اصطلاحات میں داخل کردیامگر علماء حق نے کفر کے ہر باطل نظریہ اور طریقہ واردات کو مسخ کرنے کے لیے زندگیاں بسر کرنے کاعزم کرلیا ۔ سرفہرست مولاناثناءاللہ امرتسری ؒ نے قلم قرطاس کوتھاما تو کفر اپنی دم پیٹھ میں لیے میدان سے بھاگنے پر مجبور ہوا‘دنیا کہ ہر پلیٹ فارم پر اسے ذلت کا سامنہ کرنا پڑھا ۔ مولاناموصوف کو 3باطل فرقوں کاسامناتھا۔1۔قادیانی(مرزائیوں کے رد کے لیے’’الہامات مرزا لکھی ) ۔2۔عیسائیوں کے رد کے لیے (جوابات نصاریٰ ) لکھی کو عیسائیوں کی کتاب ’’عدم ضرورت قرآن ‘‘ جوابات کا مجموعہ ہے اس کے بعد’’ اسلام اور مسیحیت ‘‘جو کہ عیسائیوں کی 3 کتب ’’عالمگیر مذہب اسلام ہے یا مسیحیت؟’’دین فطرت اسلام ہے یا مسیحیت؟’’اصل البیان فی توضیح القرآن‘‘ کے جواب میں لکھی گئی۔ 3۔ آریہ کے رد میں مولانا موصوف نے ’’حق پرکاش‘‘ لکھی جو کہ آریوں کی کتاب (ستیارتھ پرکاش)جس کا چودھواں باب ’’قرآن مجید پر159اعتراضات ‘‘پر مشتمل ہے۔ اس کے جواب میں لکھی ۔ سب سے پہلے مرزا کے کافر ہونے پر مولانامحمد حسین بٹالوی نے فتویٰ ترتیب دیا تواس پر سب سے پہلے مولانا ثناء اللہ امرتسری نے دستخط کیے۔ اسی طرح مرزائیوں کے خلاف سب سے پہلے مناظرے ومباحثے کیے اور کتب تصانیف کیں ۔جبکہ مرزا خود (15 اپریل 1907ء میں اس نے تحریر " مولانا ثناءاللہ سے آخری فیصلہ " کے عنوان سے لکھی) اعتراف کرتاہے مولانا ثناءاللہ نے مجھے بہت بدنام کیا میں دعا کرتاہوں جو جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہوجائے جبکہ مرزا 26مئی 1908ء میں مرا اور مولانا صاحب 40برس بعد تک زندہ رہے جبکہ وہ جھوٹا ثابت ہوا ‘یہ رسالہ جو مرزا کی تحریر تھی ‘اکتوبر 1908ءتک شائع ہوا بعد میں اشاعت روک دی پھر 23برس بعد دوبارہ اپریل 1931ء میں شائع ہوا بعد ازاں 1931ء کے بعد پھر اشاعت روک دی۔ زیر تبصرہ کتاب "مولاناثناء اللہ امرتسری کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی کاآخری فیصلہ " جو موصوف (داودارشد) کی تالیف جس میں مولانا موصوف نے شیخ الا سلام ثناء اللہ امرتسری کی قادیانی وعیسائی اور آریہ فرقہ باطلہ کے خلاف ان کی خدمات مولانا کے مختصر حالات و واقعات قادیانیوں کے کفریہ عقائد ‘مرزائیوں کی گمراہی کے اسباب وغیرہ کی دلائل و برھین ا ورعلماء کے اقوال کی روشنی میں نشان دہی کی ہےجو 112 صفحات پر مشتمل ہےمارچ 1988ءکو کتب خانہ رحیمیہ ( نوا ں کوٹ ) نے اشاعت کی سادت حاصل کی۔ ۔آخر میں فاضل مؤلف (داؤد ارشد )صاحب کے لیے اور خصوصامولانا ثناءاللہ امرتسری کےلیے دعاگوہ ہو ں‘ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے ‘ مولانا داودارشد کی اس علمی و تحقیق کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے اور حق و باطل کی پہچان کا موثرذریعہ بنائے۔ (ظفر )
عناوین |
|
صفحہ نمبر |
مقدمہ |
|
|
فہرست |
|
|
تہمید ی کلمات |
|
14 |
پیش لفظ |
|
19 |
باب۔1 : مولانا کی پیدائش سے پہلے اور بعد میں ہندو ستا ن کے سیاسی اور |
|
21 |
مذہبی حالات کا جائزہ |
|
|
عیسائی مشنری |
|
22 |
انگریزوں کےدو ہتھیار |
|
22 |
آریہ سماج |
|
24 |
مر زائی |
|
25 |
باب۔2: حضرت مولانا ابو الوفا ء ثنا ء اللہ امر تسری رحمتہ اللہ علیہ کے حالات زندگی |
|
28 |
علامہ محمد اقبال |
|
29 |
تتیمی اور رفو گری |
|
30 |
والدہ کا انتقال اور ایک عالم تعلیم کی رغبت دلانا |
|
30 |
آغاز تعلیم |
|
31 |
مباحثے |
|
31 |
پادری بحث |
|
32 |
آریہ پر چارک سے گفتگو |
|
33 |
سنا تن دھرمی کو بچا نا اور دعوت اسلام دینا |
|
34 |
با قاعدہ تعلیم |
|
35 |
حافظ عبدالمنان رحمتہ اللہ علیہ وزیر آبادی |
|
35 |
مولانا میاں نذیر حسین رحمتہ اللہ علیہ دہلوی |
|
36 |
مسرت آمیزو اقعہ |
|
36 |
مولانا احمد حسین رحمتہ اللہ علیہ کانپوری |
|
37 |
ندوۃ العلماء |
|
41 |
اساتذہ کرام |
|
42 |
چند مشہور اساتذہ کےحالات |
|
|
حضرت مولانا حافظ احمد اللہ امر تسری رحمتہ اللہ علیہ |
|
42 |
حضرت مولانا حافظ عبدالمنان وزیر آبادی رحمتہ اللہ علیہ |
|
43 |
شمس العلماء میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ |
|
43 |
شیخ البند مو لانا محمود الحسن رحمتہ اللہ علیہ |
|
44 |
درس و تدریس |
|
44 |
مولوی فاضل کی ڈگری |
|
45 |
اخلاق و عادات |
|
45 |
سکھ کے سا تھ سلوک |
|
45 |
بوڑھے اور بچے کے ساتھ سلوک |
|
46 |
بدلہ نہ لینا |
|
47 |
مجلس کے آداب |
|
47 |
مخالفوں سے خندہ پیشانی سے ملنا |
|
48 |
آداب مجلس و معاشرت سکھانے کا پیارانداز |
|
48 |
انفاق فی سبیل اللہ |
|
49 |
دلجوئی و دلنوازی |
|
50 |
غیر مسلموں سے تعلقات |
|
50 |
ظرافت |
|
51 |
مسلمانوں کی مشکلات وخدمات |
|
52 |
مدرسہ دیو بند |
|
52 |
ندوۃ العلماء |
|
53 |
علی گڑ ھ |
|
53 |
چند نامو ر ھستیاں ۔ مولانا ابو الکلام آزاد |
|
54 |
مولانا ظفر علی خان ۔خواجہ الطاف حسین حالی رحمتہ اللہ علیہ |
|
54 |
نواب صدیق حسن خان بھوپائی ۔ مولاناوحید الزمان |
|
55 |
قاضی سلیمان منصور پُوری ۔ مولانا ابو الو فاء ثنا ءاللہ امر تسری رحمتہ اللہ علیہ |
|
55 |
تحریک شدھی |
|
56 |
مولاناکی تصانیف |
|
57 |
آریہ مشن کا مجاسہ |
|
59 |
حق پر کاش |
|
61 |
مقد س رسول |
|
64 |
عُلماء دیو بند کا خراج تحسین |
|
65 |
اخبارات کے تاثرات |
|
66 |
رنگیلا ر سُول کے چند اقتباسات |
|
68 |
تُرک اسلام |
|
69 |
اھلحدیث اور مقلدین |
|
74 |
اعتراضات |
|
84 |
حنفی بھائیوں کے دوگروہ |
|
86 |
اہل حدیث کا مذہب |
|
86 |
رسالت |
|
87 |
توہین سلف |
|
87 |
علم غیب |
|
88 |
استدمداد بالخیر |
|
89 |
خلافت راشدہ |
|
90 |
وراثت انبیاء علہیم السلامؑ |
|
91 |
اتباع سنت اور اجتناب بدعت |
|
94 |
عرس و مو لود وغیرہ |
|
95 |
نذرغیر اللہ |
|
97 |
و ظائف غیر اللہ |
|
98 |
تقلید شخصی |
|
98 |
قراءت خلف الامام |
|
102 |
رفع الیدین |
|
104 |
آمین بالجہر و مسئلہ تراویح |
|
106۔5۔1 |
باب۔4: حجیت حدیث |
|
108 |
باب: 5: تفاسیر |
|
116 |
تاویل |
|
116 |
پاک وہند میں فن تفسیر |
|
120 |
مفسرین کے سات گروہ |
|
121 |
تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن |
|
124 |
خصوصیات تفسیر |
|
129 |
اہمیت لُغت عربی |
|
130 |
مولاناکی مشکلات اور ان پر اعتراضات |
|
133 |
تفسیر ثنائی ( اُردو) |
|
137 |
خصائص تفسیر ہذا |
|
139 |
بیان القرآن علی علم البیان |
|
141 |
تفسیر بالرائے |
|
141 |
باب۔6: مرزائی نتنہ کا محاسبہ |
|
142 |
مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی |
|
142 |
حکم بن حاکم |
|
143 |
محمد بن عبداللہ |
|
143 |
سید علی مُحمد باب |
|
144 |
بہائی تحریک |
|
145 |
مرزاغلام احمد |
|
145 |
مرزانبو ت کے راستے پر |
|
146 |
نکاح مرزا |
|
148 |
دعوٰی نبوت |
|
149 |
مباہلے |
|
145 |
دعوٰی الُوہیت |
|
149 |
مرزا کا فتوی ٰ |
|
150 |
مرزاکاخاندان |
|
150 |
مُفسدہ 1857 ء میں خدمات |
|
151 |
مولاناثناء اللہ سے ٹکراو |
|
152 |
تاریخی اشتہار ( آخری فیصلہ) |
|
152 |
تین نکات |
|
155 |
مرزاکی دُعا کی قبولیت |
|
156 |
مرزا کے بعد مرزائی فتنہ |
|
156 |
لاہوری پارٹی |
|
156 |
مرزا کا تعاقب |
|
157 |
قادیانی مشن کی تردید لکھی گئی کتابیں |
|
157 |
نتیجہ |
|
158 |
باب۔7: رد عیسائیت |
|
159 |
ایک اشکال |
|
161 |
ردشبہ |
|
162 |
عیسائیت اور انجیلیں |
|
166 |
اناجیل کی حقیقت |
|
168 |
انجیل متی |
|
168 |
لوقا کی انجیل |
|
169 |
یوحنا کی انجیل |
|
169 |
انا جیل اور قرآن |
|
170 |
عیسائی تعلیم |
|
170 |
ہندوستان میں عیسائیت کا زور |
|
171 |
مولاناثناء اللہ کا تردید عیسائیت میں حصہ |
|
172 |
تصانیف |
|
173 |
جوابات نصاریٰ |
|
173 |
معارفُ القرآن (ایک پادری کو جواب) |
|
173 |
اثبات توحید |
|
179 |
تُم عیسائی کیوں ہوئے |
|
180 |
توحید ۔ تثلیث اور راہ نجات |
|
183 |
تقابل ثلاثہ |
|
183 |
اسلام اور مسیحیت |
|
184 |
نماز اربعہ |
|
185 |
باب۔8: اخبارات ۔خبرو اخبارات کی تعریف |
|
186 |
ہندوستان میں اخبارات |
|
196 |
اہل حدیث |
|
197 |
اغراض و مقاصد |
|
197 |
مدت اشاعت |
|
199 |
عنوانات |
|
199 |
اداریہ |
|
199 |
آریہ مشن |
|
200 |
قادیانی |
|
201 |
عیسائی مشن |
|
201 |
انتخاب الا خبار |
|
202 |
مذاکرہ علمیہ |
|
202 |
فتاٰٰوی |
|
202 |
عُلما ء کے مضامین |
|
202 |
اخبار مخز ن ثنائی |
|
203 |
گلُد ستہ ثنائی |
|
203 |
مُر قع قادیانی |
|
204 |
مسلمان |
|
204 |
نتیجہ |
|
205 |
باب۔9: فتاو ٰ ی |
|
207 |
ایک مشکل |
|
208 |
فتاوٰ ی ثنائیہ |
|
211 |
مولانا کا فتوٰے |
|
213 |
منتاوٰی کا جمع کرنا |
|
216 |
باب۔10۔ سیاسی ، دینی اور علمی خدمات |
|
218 |
جماعت تنظیم |
|
223 |
شہر ی اور صُوبائی تنظیمیں |
|
224 |
جمعیت علما ء ہند |
|
225 |
ند وۃ العُلماء |
|
229 |
دینی خدمت |
|
230 |
مقصد مذہب پر تحقیقاتی مضمون |
|
231 |
باب۔11 "حج اور مو تمر اسلامی میں شرکت |
|
247 |
روانگی |
|
247 |
ایک لطیفہ |
|
248 |
تبلیغ |
|
249 |
مو تمر اسلامی |
|
249 |
قبروں کےقبوں کا گرا یا جانا |
|
251 |
شاہ کا خط |
|
251 |
مولانا کی واپسی |
|
253 |
چند سمعصر اہلحدیث بزرگ حضرات |
|
253 |
امام عبدالجبار غزنوی ۔ مولانا شمس الحق ڈیانوی |
|
254۔253 |
مولانا ابُو سعید مُحمد حسین بٹا لوی ر حمتہ اللہ علیہ |
|
254 |
مولانا مُحمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمتہ اللہ علیہ |
|
255 |
مولاناعبدالقادر قصوری رحمتہ اللہ علیہ |
|
255 |
مولانا ابُو القاسم بنارسی رحمتہ اللہ علیہ |
|
256 |
مولانا حافظ عبدالتد رو پڑی |
|
256 |
مولانا قاضی مُحمد سلیمان منصوری پوری |
|
257 |
باب۔12:مناظر ے و مباحثے |
|
259 |
قرآن کے دومناظرے |
|
261 |
رسُو ل اللہ ﷺ کا مناظرہ و مبا ہلہ |
|
263 |
صحابہؓ اور ان کے بعد فن منا ظرہ |
|
264 |
ہندوستان میں مناظرے |
|
264 |
مولاناثناء اللہ رحمتہ اللہ علیہ |
|
265 |
اعزاز خصو صی |
|
265 |
مولانا کے مناظرے |
|
266 |
آریہ سے مناظرے |
|
266 |
منا ظر ہ نگینہ |
|
267 |
مناظرہ خورجہ |
|
268 |
قادیانیوں سے مناظرہ |
|
268 |
مناظرہ رام پور |
|
269 |
فاتح قادیان |
|
270 |
عیسائیوں سے مناظرے |
|
270 |
مناظرہ لاہور |
|
271 |
مناظرہ گو جرانوالہ |
|
271 |
مناظرہ الہ ٰ آباد |
|
271 |
اسلامی گروہوں سے مناظرے |
|
272 |
مولانا کے منا ظروں کی خصُوصیات |
|
273 |
بے مثال جُرات |
|
274 |
حاضر جوابی اور بر جستگی |
|
275 |
باب:13۔ھجرات اور رحلت |
|
279 |
فرزند عزیز کی شہادت |
|
280 |
ترک وطن |
|
281 |
کتب خانہ |
|
281 |
استفتا ء |
|
281 |
علا لت ووفات |
|
283 |
مولانا کی وفات کی خبر |
|
283 |
علامہ سید سلیمان ر حمتہ اللہ علیہ کا خراج تحسین |
|
284 |
مراجع و مصادر |
|
286 |