طاغوت، عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے متعد د معانی ہیں ۔قرآن کریم میں یہ لفظ 8 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ اسلامی اصطلاح میں اس سلسلے میں مزید وسعت ہے۔ طاغوت سے مراد وہ حاکم ہے جو قانون الٰہی کے علاوہ کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہے ۔ قرآن مجید میں ایک آیت کے حوالے سے ہے کہ جو عدالت طاغوت کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے پاس اپنے معاملات فیصلہ کے لیے، لے کر جانا ایمان کے منافی ہے۔ زیر نظر رسالہ ’’ نظام طاغوت سے برأت‘‘ مولانا صدر الدین اصلاحی کے ماہنامہ ’زندگی‘ رام پور ہندوستان نومبر ودسمبر1952ء میں شائع ہونے والے مضمون کی کتابی صورت ہے ۔اس میں طاغوت کی حیثیت مثالوں کے ذریعے بیان کی گئی ہے اور دستور سازی وقانون سازی کی کیا حیثیت ہے؟نظام طاغوت کی خاص ملازمتیں جن سے نظام کو تقویت ملتی ہے ان کی کیا حیثیت ہے؟اور اس نظا م میں عام ملازمتوں کی حیثیت کیسی ہے، کس کو اس نظام میں شامل ہوکر رخصتِ شرعی مل سکتی ہے اور اس کی کیا واقعی صورتیں ہیں ۔(م ۔ا)
عناوین |
صفحہ نمبر |
حرف اول |
8 |
نظام طاغوت سے برات |
12 |
اسلام اور جاہلیت کا فطری تضاد |
13 |
تضاد کی حدیں |
13 |
جاہلیت کے ساتھ اسلام کی پالیسی |
16 |
اس پالیسی کی عملی مثالیں |
17 |
امثلہ مذکورہ کا سبب انتخاب |
19 |
ایک اصولی نکتہ |
21 |
نظام جاہلیت کے محکوم مسلمان |
22 |
تعاون کے مختلف مراتب |
24 |
دستوریہ اور مقننہ کی شرکت |
25 |
نظام جاہلی کی خاص ملازمتیں |
30 |
قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں شمس الائمہ سرخسی لکھتے ہیں |
31 |
عام ملازمتیں |
34 |
رخصت اضطرار |
35 |
اضطرار کی واقعی صورتیں |
36 |
حالت اضطرار کا محمل |
40 |
اضطرار کی غیر واقعی صورت |
41 |
قومی مفاد |
42 |
اصولی غلطی |
45 |
پیشوایان دین کی خصوصی ذمے داریاں |
45 |
اسوہ یوسفی کا غلط استعمال |
49 |
واقعے کی صحیح تصویر دلائل کی روشنی میں |
52 |