#756

مصنف : سید ابو الاعلی مودودی

مشاہدات : 38588

سنت کی آئینی حیثیت

  • صفحات: 368
  • یونیکوڈ کنورژن کا خرچہ: 11040 (PKR)
(بدھ 16 نومبر 2011ء) ناشر : اسلامی پبلیکشنز،شاہ عالمی مارکیٹ،لاہور

انکار سنت کا فتنہ تاریخ اسلام میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں خوارج اور معتزلہ نے پیدا کیا۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں سنت رسول ﷺ حائل تھی لہذا نہوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دوگونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کا مسئلہ یہ تھا کہ یونانی فلسفے نے اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے جو شکوک و شبہات عقل انسانی میں پیدا کر دیے تھے، وہ انہیں سمجھنے سے پہلے ہی حل کر دینا چاہتے تھے لہذا انہوں نے فلسفہ کے نام سے منقول ہر بات کو عقل کا لازمی تقاضا سمجھا اور اسلامی عقائد اور اصول و احکام کی ایسی تعبیر کرنا شروع کر دی جو ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو۔ اس راہ میں پھر حدیث و سنت حائل ہوئی تو انہوں نے بھی خوارج کی طرح حدیث کو مشکوک ٹھہرایا اور سنت کو حجت ماننے سے انکار کر دیا۔ انکار سنت کا یہ فتنہ درمیان میں کئی صدیوں تک اپنی شمشان بھومی میں پڑا رہا یہاں تک کہ تیرہویں صدی ہجری میں وہ دوبارہ زندہ ہوا۔ پہلے یہ مصر و عراق میں پیدا ہوا اور اس نے دوسرا جنم برصغیر پاک و ہند میں لیا۔ برصغیر میں اس کی ابتدا کرنے والے سرسید احمد خان اور مولوی چراغ علی تھے۔ ان کے بعد مولوی عبد اللہ چکڑالوی اس کے علمبردار بنے۔ ان کے بعد مولوی احمد دین امرتسری نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور پھر اسلم جیرجپوری اسے آگے لے کر بڑھے۔ اور آخر کار اس فتنہ انکار حدیث و سنت کی ریاست و چودہراہٹ غلام احمد پرویز صاحب کے حصے میں آئی اور انہوں نے اس فتنے کو ضلالت کی انتہا تک پہنچا دیا۔ اس فکر کے حاملین اسلام کو موم کا ایک ایسا گولہ بنانا چاہتے ہیں جسے بدلتی دنیا کے ہر نئے فلسفے کے مطابق روزانہ ایک نئی صورت دی جا سکے۔

زیر نظر کتاب ایک پرویزی ڈاکٹر عبد الودود اور سید ابو الاعلی مودوی ؒ کے سنت کی آئینی حیثیت کے بارے ایک طویل مراسلت پر مشتمل ہے جو پہلے ترجمان القرآن میں شائع ہوئی اور بعد ازاں اس کی افادیت کے پیش نظر اسے ایک مستقل کتاب کے طور بھی شائع کیا گیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مولانا مودودی ؒ نے اس کتاب میں عقل و نقل کی روشنی میں پرویزی فکر کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ اللہ تعالی مرحوم کو سنت کے اس دفاع پر جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین(ت۔م)
 

عناوین

 

صفحہ نمبر

دیباچہ

 

13

سنت کی آئینی حیثیت

 

 

ڈاکٹر صاحب کا پہلا خط اور اس کا جواب

 

25

ڈاکٹر صاحب کا دوسرا خط

 

27

جواب

 

29

سنت کیا چیز ہے؟

 

30

سنت کس شکل میں موجود ہے؟

 

33

کیا سنت متفق علیہ ہے؟اور اس کی تحقیق کا ذریعہ کیا ہے؟

 

40

چار بنیادی حقیقتیں

 

44

رسول اللہ ﷺ کے کام کی نوعیت

 

48

حضور ﷺ کی شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت کا فرق

 

49

قرآن سے زائد ہونا اور قرآن کے خلاف ہونا ہم معنی نہیں ہے

 

50

کیا سنت قرآن کے کسی حکم کومنسوخ کرسکتی ہے؟

 

51

احادیث کے پرکھنے میں درایت اور درایت کا استعمال

 

53

منصب نبوت،صحیح اور غلط تصور کا فرق

 

59

منصب نبوت اور اس کے فرائض

 

67

رسول پاک ﷺ کے تشریعی اختیارات

 

80

سنت اور اتباع سنت کا مفہوم

 

84

رسول پاک ﷺ کس وحی کے اتباع پر مامور تھے اورہم کس کے اعتبار پر معمور ہیں

 

86

مرکز ملت؟

 

89

کیا حضور ﷺ صرف قرآن پہنچانے کی حد تک نبی تھے؟

 

93

حضور ﷺ کی اجتہادی لغرشوں سے غلط استدلال

 

96

موہوم خطرات

 

99

خلفائے راشدین پر بہتان

 

103

کیا حضور ﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟

 

110

سنت کے متعلق چند مزید سوالات

 

116

اعتراضات وجوابات

 

135

’’بزم طلوع اسلام‘‘سے تعلق؟

 

135

کیا گمشتی سوال نامہ کا مقصد علمی تحقیق تھا؟

 

136

رسول ﷺ کی  حیثیت شخصی اور حیثیت نبوی

 

137

تعلیمات سنت میں فرق مراتب

 

140

علمی تحقیق یا جھگڑالو پن؟

 

142

عدالت عالیہ مغربی پاکستان کا ایک اہم فیصلہ

 

229

تبصرہ

 

269

احادیث میں اختلاف کی حقیقت

 

343

اعتراضات کا تفصیلی جائزہ

 

253

کیا حدیث قرآن میں ترمیم کرتی ہے؟

 

363

آخری گزارش

 

365

 

اس ناشر کی دیگر مطبوعات

ایڈ وانس سرچ

اعدادو شمار

  • آج کے قارئین 26364
  • اس ہفتے کے قارئین 110085
  • اس ماہ کے قارئین 805735
  • کل قارئین96457579

موضوعاتی فہرست