تاریخ نویسی ہو یا سیرت نگاری ایک مشکل ترین عمل ہے ۔ اس کے لیے امانت و دیانت اور صداقت کا ہونا از بس ضروری ہے۔مؤرخ و سوانح نگار کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ تعصب ،حسد بغض، سے کوسوں دور ہو ۔تمام حالات کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہو ۔ذہین و فطین ہو اپنے حافظے پر کامل اعتماد رکھتا ہو۔حالات و واقعات کو حوالہ قرطاس کرتے وقت تمام کرداروں کا صحیح تذکرہ کیا گیا ہو ۔اس لیے کہ تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنا ماضی دیکھ سکتا ہے اور اسلام میں تاریخ ، رجال اور تذکرہ نگاری کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔کیونکہ علماء و قراء اور صلحا و نبلاء کی سوانح نگاری ایسا فن ہے جو راحت جاں اور تسکین قلب کا سامان فراہم کرتا ہے اور ائمہ اسلام ،ہمارے صالح اسلاف ،جیسے قراء فقہاء ،محدثین اور دیگر کے حالات و سیرت کا مطالعہ کرنا اور ان کا بغور جائزہ لینا طالب علم کے لیے عظیم فوائد کا باعث بنتا ہے،امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول کہ علماء کے حالات و واقعات اور ان کے محاسن بیان کرنا مجھے فقہ سے بھی زیادہ پسند ہے ۔بے شمار مسلمان مصنفین نے اپنے اکابرین کے تذکرے لکھ کر ان کے علمی عملی،تصنیفی،تبلیغی اور سائنسی کارناموں کو بڑی عمدگی سے اجاگر کیا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’اتحاف القرّاء الفضلاء‘‘شیخ القراء قاری ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ کے صاحبزادے و تلمیذ رشید جناب قاری عویمر ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ کی عظیم کاوش ہے۔یہ کتاب دس اجزاء میں دس مشہور ائمہ قراء (1۔امام نافع مدنی،2۔امام ابن کثیر مکی۔،3۔امام ابو عمرو بصری،4۔امام ابن عامر شامی،5۔امام عاصم کوفی،6۔امام حمزہ کوفی،7۔امام کسائی کوفی 8۔امام ابو جعفر مدنی،9۔امام یعقوب حضرمی ،10۔امام خلف العاشر کوفی رحمہم اللہ) کے سوانح حیات پر مشتمل ہے۔ جبکہ جزء نمبر گیارہ(اتحاف القرّاء الفضلاء(دس مشہور مشائخ عظام۔11) دیگر دس مشہور مشائخ عظام (امام ابن مجاہد، امام عثمان بن سعید دانی ،امام شاطبی،امام ابن جزری،الشیخ محمد بن احمد متولی مصری،الشیخ احمد عبد العزیز زیّات مصری،الشیخ عبد الفتاح قاضی مصری، الشیخ عبد الفتاح مرصفی مصری رحمہم اللہ ،الشیخ عمرو بن عبد اللہ حلوانی مصری ،الشیخ محمد ابراہیم بن عبد اللہ معروف قاری ابراہیم میر محمدی حفظہما اللہ) کے سوانح حیات پر مشتمل ہے ۔ فاضل مصنف نے 32 امہات الکتب سے استفادہ کر کے زیر نظر مجموعہ کو دلنشیں انداز میں مرتب کیا ہے جس میں قرّائے عشرہ کے 22 رواۃ اور 124 طرق کے حالات زندگی جمع کیے گئے ہیں نیز قرّاء کے حالات زندگی کے ساتھ ساتھ محدثین کے ہاں ان کے علم حدیث میں مقام کو بھی بیان کیا گیا ہے اور ہر قاری سے مروی کتب حدیث میں موجود احادیث کی تعداد بھی لکھی گئی ہے۔اس کے علاوہ قرّاء کے حالات زندگی میں ذکر ہونے والے اماکن،القاب ،نسبتوں کی وضاحت کی گئی ہے اور قرّاء کرام کے حالاتِ زندگی میں ذکر ہونے والے ان کے بعض شاگردوں سے منقول انمول واقعات کو حاشیہ میں لکھا گیا ہے۔ موصوف کتاب ہذا کے علاوہ نصف درجن کتب کے مصنف ہیں جس میں ایک ہزار صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب ’’النفحات العاطرۃ فی توجیہ القراءات العشر المتواترۃ‘‘بھی شامل ہے ۔محترم قاری صاحب ایک اچھے مدرس ، مصنف کے ساتھ ساتھ ایک اچھے واعظ بھی ہیں اللہ تعالیٰ ان کے زورِ قلم اور علم و عمل میں اضافہ فرمائے ،ان کی تدریسی،تحقیقی و تصنیفی اور دعوتی جہود کو شرفِ قبولیت سے نوازے ۔آمین (م۔ا)
عناوین |
|
صفحہ نمبر |
امام ابن کثیر مکی سوانح حیات |
|
7 |
امام بزی کے سوانح حیات |
|
32 |
امام بزی کے طرق اور ان کے سوانح حیات |
|
40 |
امام قنبل کے سوانح حیات |
|
45 |
امام قنبل کے طرق اور ان کے سوانح حیات |
|
50 |