امام ابی بکر احمد بن الحسین البیہقی

  • نام : امام ابی بکر احمد بن الحسین البیہقی

نام و نسب

امام ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبداللہ بن موسیٰ النیسابوری، الحسروجردی، البیہقي  رحمۃ اللہ علیہ ۔

شعبان ۳۸۴ ھ میں بیہقی کے علاقہ خسرو جرد میں پیدا ہوئے ۔ علم و فضل سے معمور ماحول میں پرورش پائی ۔ ابتدائی لکھنا پڑھنا وہیں کے مکاتب میں سیکھا، تقریباً پندرہ برس کی عمر میں باقاعدہ علمی مجالس میں شرکت شروع کر دی اور ہمہ تن ہوش حصول علم میں مشغول ہوگئے۔ امامِ بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان کے حالات کے حوالے سے اگرچہ تاریخ کے اوراق خالی ہیں لیکن بچپن میں آپ کی علم کی طرف بے پناہ رغبت اور اپنے آپ کو علم کی تحصیل کے لیے وقف کر دینا اس بات کی دلیل ہے کہ خاندان میں علمی ذوق شوق موجود تھا اور اس سے معاشی اعتبار سے خاندان کی اطمینان بخش کیفیت کا بھی احساس ہوتا ہے کہ جس میں ایک نوجوان کو ضروریات زندگی کے فراہم کرنے سے قطعی الگ کرکے فقط تعلیم و تعلم کے لیے آزاد چھوڑ دیا جائے۔

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے حصولِ علم کا آغاز کس چیز سے کیا اس بارے میں کچھ صراحت موجود نہیں لیکن مسلمانوں کے عمومی معمولات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بہر حال ممکن ہے کہ آپ نے ابتداء حفظِ قرآن سے ہی کی ہوگی اور پھر مجالسِ حدیث و فقہ میں شرکت اختیار کی ہوگی۔

محدثین کے طریقہ کے موافق آپ نے سب سے اول اپنے علاقے کے اہلِ علم سے کسبِ فیض کیا اور پھر باقی بلادِعلم کی طرف رختِ سفر باندھا۔ گویا کہ آپ کی پہلی علمی جولان گاہ بلادِخراسان ہی تھے اور اس کے بعد تقریباً تمام دنیا کے علمی مراکز میں جا جا کر وقت کے اساطینِ علم سے علمی سیرابی کا سامان کیا۔

خراسان اور خراسان سے باہر جس شہروں کی طرف آپ نے علمی پیاس بجھانے کے لیے سفر کیا، ان میں توقان، اسفرآئین، طوس، مھرجان، أسد آباد، ھمدان، دامغان، اَجھان، رے، طابران، نیشاپور، روذبار، بغداد، کوفہ اور مکہ مکرمہ شامل ہیں۔ گویا کہ حضرتِ امام نے خراسان کے تمام شہروں میں جو کچھ علمی سرمایہ تھا وہ سب جمع کر لیا اور پھر عراق اور حجاز کے بڑے علمی مراکز کا رُخ کیا، ان مراکز میں آپ نے جن جن شیوخ سے استفادہ فرمایا اور خزانۂ علمیہ کے گوہر ہائے گراں مایہ کو جمع کیا ان کی تعداد کے بارے میں امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ  نے طبقات الشافعیۃ میں لکھا ہے:

بلغ شیوخہ أکثر من مائۃ شیخ ولم یقع للترمذی، ولانسائی ولا ابن ماجہ

’’ان کے شیوخ ایک سوسے بھی اوپر ہیں اور شیوخ کی یہ فراوانی امام ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں سے کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔‘‘

 ڈاکٹر ضیاء الرحمن الاعظمیٰ نے المدخل الی السنن الکبرٰی کی تحقیق میں ذکر کیا ہے کہ میں جب سنن کبرٰی کا ابتداء سے آخر تک پورے اہتمام سے جائزہ لیا تو صرف سنن کبرٰی میں آپ کے اساتذہ کی تعداد کو ایک سو سے زیادہ پایا۔ جس میں نواسی حضرات کے حالات بھی انھیں مل گئے جنھیں کتاب میں درج کر دیا ہے اور بیالیس ایسے اساتذہ ہیں جن کے تفصیلی حالات تک آگاہی حاصل نہیں ہو سکی۔ یعنی ڈاکٹر  اعظمیٰ کی تحقیق کے موافق صرف سنن کبرٰی میں آپ کے اساتذہ کی تعداد ایک سواکتیس تک جاپہنچتی ہے۔

ان تمام اساتذہ کرام میں انتہائی شہرت کے حامل یہ حضرات ہیں:

ابو الحسن محمد بن حسین العلوی، امام ابو عبداللہ الحاکم، ابو اسحاق، اسفرائینی، عبداللہ بن یوسف اصبھانی، ابو علی الروزباری، امام بزاز، ابو بکر ابن فورک رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ۔

اخلاق و آداب

سلف و صالحین کا خصوصی امتیاز یہ تھا کہ جس قدر ان کے پاس دولت علم ہوتی تھی اسی قدر ان کی زندگی عمل صالح سے بھی معمور ہوتی تھی اور عالم باعمل کی حقیقی تصویر ہوا کرتے تھے۔ بالکل ایسا ہی کچھ جناب امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  کا طرزِ زندگی تھا کہ آپ بڑے زاہد عن الدنیا، انتہائی قانع، بہت بڑے متقی اور پارسا شخص تھے۔ آپ کے ان اوصاف کی گواہی اہل تاریخ نے دی ہے، امام ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ  رقم فرماتے ہیں:

’’مجھے شیخ ابو الحسن الفارسی نے جنابِ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  کی بابت لکھا کہ آپ سیرتِ علماء کا عملی نمونہ تھے، انتہائی تھوڑے پر قناعت فرمانے والے اور زہد و ورع کے اعلیٰ اوصاف سے مزین تھے اور حدیہ ہے کہ تادمِ زیست اسی طرزِ حیات پر کاربند رہے۔‘‘

تبیین کذب المفتری:۲۶۶

امام ابنِ کثیر  رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے ایسے ہی اعلیٰ اخلاق کی گواہی دی ہے، آپ تحریر فرماتے ہیں:

’’آپ زاہد عن الدنیا، بہت تھوڑے پر راضی ہونے والے اور عبادت و ورع میں بہت آگے بڑھے ہوئے تھے۔‘‘

علمی مقام و مرتبہ

آپ کو خدائے تعالیٰ نے آپ کی زندگی میں ہی بہت زیادہ علمی شان و شوکت سے بہرہ مند فرما دیا تھا۔ امام ابنِ عساکر رحمۃ اللہ علیہ  ابو الحسن الفارسی سے نقل کرتے ہیں:

ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی تمام اصنافِ علم کے امام، حدیث کے حافظ، بہت بڑے فقیہ اور اُصولی تھے۔ پھر متدین اور خدا سے ڈرنے والے بھی تھے۔ اپنے زمانے کے سب سے بڑے حافظِ حدیث، اور معاصرین میں ضبط و اتقان میں انفرادیت کے حامل تھے۔ امام ابو عبداللہ الحاکم رحمۃ اللہ علیہ  سے کثرت سے روایت کرنے والے کبار اصحاب میں آپ کا شمار ہوتا تھا اور پھر اس پر اُنھوں نے اپنی محنت و کاوش سے دیگر علوم میں بھی مہارت پیدا کی۔ کتابت اور حفظِ حدیث بچپن سے شروع کیا اور اسی میں ہی پلے بڑھے اور تفقہ فی الدین کی منازل طے کرتے ہوئے ان میں نکھار پیدا کیا اور اُصولِ دین میں مہارت حاصل کی۔

تبیین کذب المفتری:۲۶۶

ابن ناصر الدین رحمۃ اللہ علیہ  حضرتِ امام کے مناقب میں یوں رقم طراز ہیں:

آپ حفظ و اتقان میں اپنے زمانہ کے نادرہ روز گار تھے۔ ثقہ اور بااعتماد امام تھے اور پورے خراسان کے بالاتفاق شیخ تھے۔ آپ کے رشحاتِ قلم کا زمانہ بہی خواہ ہے، جن میں السنن الکبری، السنن الصغریٰ، المعارف، الأسماء والصفات، دلائل النبوۃ، الآداب، الدعوات الکبیر، الترغیب والترھیب اور کتاب الزھد شامل ہیں۔

امام ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ آپ کے بلند علمی پایہ پر عجب انداز میں روشنی ڈالتے ہیں، آپ لکھتے ہیں:

اگر بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ چاہتے تو اپنی علمی وسعت اور اختلافِ ائمہ پر حاوی ہونے کی بنا پر اس پر قادر تھے کہ ایک الگ اپنا مکتب فکر قائم کرتے اور اجتھادات سے علیحدہ طور پر دنیا کو مستفید کرتے۔

المدخل الی السنن الکبری:۱۶

عبدالغافر فارسی رحمۃ اللہ علیہ  آپ کی عظمت کایوں اعتراف کرتے ہیں:

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  علم حدیث، علم فقہ اور علم علل الحدیث کے جامع تھے۔ خود آپ کے معاصر اور متاخرین علماء نے آپ کی قدر و منزلت کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ یہاں تک کہا کہ وہ دیگر تمام علماء سے آگے نکل گئے تھے۔ پھر آپ کا خصوصی امتیاز یہ تھا کہ سنت نبوی کی محبت میں فنا تھے۔آپ نے سنن کو جس خوب صورتی سے جمع و ترتیب دیا ہے اس کی اس سے پہلے نظیر ملنا ممکن نہیں۔

شوافع پر آپ کے احسانات

آپ چونکہ خود بھی مجتہد تھے اور تمام مذاہبِ فقہ کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیا تھا؛ اس لیے تمام فقہاء کی آراء اور ان کے اُصول نہ صرف آپ کے سامنے عیاں تھے بلکہ آپ نے تمام کا ناقدانہ تجزیہ بھی کر رکھا تھا، اس لیے آپ نے سنت سے قریب تر ہونے کی وجہ سے اپنے لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کے مکتب فکر کا انتخاب کیا اور پھر اس کی وہ خدمت کی کہ علماء یہاں تک کہنے پر مجبور ہو گئے کہ دنیا میں کوئی بھی شافعی المسلک شخص ایسا نہیں کہ جس پر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے احسانات نہ ہوں سوائے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  کے، کہ جن کے مذہبِ شافعی کی نصرت میں لکھی گئی کتب کا احسان امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  پر ہے۔

تذکرۃ الحفاظ:۲؍۱۱۳۲

اسی لیے بعض حضرات نے خواب میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  کی تعریف کرتے سنا۔

مذہبِ شافعی کے لیے خدمات کے حوالے سے ابن خلکان رحمۃ اللہ علیہ  رقم طراز ہیں:

وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کی نصوص کو دس مجلدات میں جمع کیا اور کرۂ ارض پر ان سے زیادہ مذہب شافعی کی نصرت کرنے والا کوئی نہیں۔

ارشد تلامذہ

کسی بھی عالم کے علمی مقام کا جہاں ان کی کتب سے اندازہ ہوتا ہے وہاں اس سے بھی بڑھ کر اس کا تعارف اس کے وہ ارشد تلامذہ ہوتے ہیں جنھیں وہ انتہائی محنت اور جانفشانی سے تیار کرتا ہے۔ بالکل ایسے ہی امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  اگر اپنی گراں قدر تصانیف نہ بھی عالمِ وجود میں چھوڑ کر جاتے تو ان کو زندہ رکھنے کے لیے ان کے تلامذہ ہی کافی تھے۔ جنھوں نے آپ کی کتب کو آئندہ نسلوں کی طرف منتقل کیا اور ہمیشہ آپ کی ملازمت اختیار کی ہے، ان میں ابو عبداللہ محمد بن الفضل الفرادی، ابو عبداللہ محمد عبدالجبار بن محمد بن احمد البیہقي الخواری، ابو نصر علی بن مسعود بن محمد الشجاعی، ابو عبداللہ بن ابو مسعود الصاعدی، فرزندِ حضرت ِامام اسماعیل بن احمد البیہقي اور آپ کے پوتے ابو الحسن عبید اللہ بن محمد بن احمدj شامل ہیں۔

وفات

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  کی وفات کے سلسلے میں امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں کہ آخر عمر میں وہ نیشاپور اُٹھ گئے تھے اور وہاں اپنی کتب کے درس میں مشغول ہو گئے، لیکن جلد ہی وقتِ رحلت آن پہنچا اور ۱۰ جمادی الاولیٰ ۴۵۸ھ میں نیشاپور میں ہی داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور بیہقی میں لاکر آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔ ؒ علیہ رحمۃ واسعۃ

کل کتب 4

  • 1 #2152

    مصنف : امام ابی بکر احمد بن الحسین البیہقی

    مشاہدات : 22918

    دلائل النبوة جلد اول

    dsa (جمعہ 12 دسمبر 2014ء) ناشر : دار الاشاعت، کراچی
    #2152 Book صفحات: 293

    اللہ تعالی نے قرآن کریم میں نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی کو بہترین نمونہ قرار دے کر اہل اسلام کو آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔جس کا تقاضا ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ کے ایک ایک گوشے کو محفوظ کیا جائے۔اور امت مسلمہ نے اس عظیم الشان تقاضے  کو بحسن وخوبی سر انجام دیا ہے۔سیرت نبوی پر ہر زمانے میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اور اہل علم نے اپنے  لئےسعادت سمجھ کر یہ کام کیا ہے۔زیر تبصرہ کتاب " دلائل النبوۃ "بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،جوامام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی ﷫کی تصنیف ہے۔اس کا اردو ترجمہ مولانا محمد اسماعیل الجارودی ﷾نے کیا ہے۔مولف نے اس عظیم الشان تصنیف میں سیرت نبوی کے ساتھ ساتھ آپ کی نبوت کے دلائل بھی بڑے احسن اور منفرد انداز میں جمع فرما دیئے ہیں۔اصل کتاب عربی میں ہونے کے سبب اردو خواں طبقہ کے لئے اس سے استفادہ کرنا ایک مشکل امر تھا ۔ مولانا محمد اسماعیل الجارودی﷾ نے اردو ترجمہ کر کے اردو خواں طبقہ کی اس مشکل کو حل کر دیا ہے۔اللہ تعالی ان کی ان خدمت کو قبول فرمائے۔آمین۔(راسخ)

    مزید مطالعہ۔۔۔

  • 2 #4537

    مصنف : امام ابی بکر احمد بن الحسین البیہقی

    مشاہدات : 7760

    رسول اللہ ﷺ کے کریمانہ آداب زندگی

    (جمعرات 01 جون 2017ء) ناشر : دار الکتب السلفیہ، لاہور
    #4537 Book صفحات: 571

    اسلامی آداب واخلاقیات حسنِ معاشرت کی بنیاد ہیں،ان کے نہ پائے جانے سے انسانی زندگی اپنا حسن کھو دیتی ہے ۔ حسنِ اخلاق کی اہمیت اسی سے دوچند ہوجاتی ہے کہ ہمیں احادیث مبارکہ سے متعدد ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جن میں عبادت وریاضت میں کمال رکھنے والوں کےاعمال کوصرف ان کی اخلاقی استواری نہ ہونے کی بنا پر رائیگاں قرار دے دیاگیا۔حسن ِاخلاق سے مراد گفتگو اور رہن سہن سے متعلقہ امور کوبہتر بنانا ہی نہیں ہے بلکہ اسلامی تہذیب کے تمام تر پہلوؤں کواپنانا اخلاق کی کامل ترین صورت ہے ۔ کتب احادیث میں دیگر عنوانات کے ساتھ ایک اہم عنوان الآداب یا البر والصلۃ والآداب بھی شامل ہے ۔جس میں معاشرتی زندگی کے آداب ومعاملات شخصی عادات کی اصلاح وتحسین ،اقربا واحباب کے حقوق ، جانوروں کے حقوق ، عام اشیاء کے استعمال کرنے نیز شخصی واجتماعی رویوں سے متعلق احادیث ائمہ محدثین نے جمع کیا ہے ۔ زیرنظر کتاب ’’آداب زندگی ‘‘ امام بیہقی ،ابوبکراحمد بن حسین بن علی (384۔458ھ) کی اخلاقیات وآداب کے موضوع پر مایہ ناز کتاب ’’الآداب‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔امام موص...

  • 3 #5056

    مصنف : امام ابی بکر احمد بن الحسین البیہقی

    مشاہدات : 22436

    شعب الایمان اردو ترجمہ جلد۔1

    dsa (ہفتہ 09 ستمبر 2017ء) ناشر : دار الاشاعت، کراچی
    #5056 Book صفحات: 520

    اسلام کے دو بنیادی اور صافی سر چشمے قرآن وحدیث ہیں جن کی تعلیمات و ہدایات پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ قرآن مجید کی طرح حدیث بھی دینِ اسلام میں ایک قطعی حجت ہے۔ کیونکہ اس کی بنیاد بھی وحی الٰہی ہے۔ احادیث رسول ﷺ کو محفوظ کرنے کے لیے کئی پہلوؤں اور اعتبارات سے اہل علم نے خدمات انجام دیں۔ تدوینِ حدیث کا آغاز عہد نبوی سے ہوا او ر صحابہ و تابعین کے دور میں پروان چڑھا۔ ائمہ محدثین کے دور میں خوب پھیلا پھولا۔ مختلف ائمہ محدثین نے احادیث کے کئی مجموعے مرتب کئے۔ زیرِ تبصرہ کتاب ’’شعب الایمان اردو‘‘ امام ابی بکر احمد بن الحسین البیھقی کی ہے جس کا اردو ترجمہ مولانا قاضی ملک محمد اسماعیل صاحب نے کیا ہے۔ یہ کتاب ایمان کے ستتر (77) شعبوں سے متعلق نصوص قرآنی، احادیث نبویہ، صحابۂ کرام﷢، تابعین و تبع تابعین اور صلحاء امت و صوفیائے کرام کے آثار، اقوال و اشعار پر مشتمل (11269) روایات کا جامع و مفصل انسائیکلو پیڈیا ہے۔ جس کی سات جلدیں ہیں اساتذہ، طلباء اور دیگر لوگوں کے لئے نادر تحفہ ہے۔ اس کتاب کے معاونین کو اللہ تعالیٰ اجر عظیم سے نوازے...

  • 4 #6699

    مصنف : امام ابی بکر احمد بن الحسین البیہقی

    مشاہدات : 3847

    کتاب قراۃ خلف الامام

    (بدھ 04 مئی 2022ء) ناشر : انصار السنہ پبلیکیشنز لاہور
    #6699 Book صفحات: 495

    نماز کے مختلف فیہ مسا ئل میں سے ایک مسئلہ فاتحہ خلف الامام  کا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی سورۃ الفاتحہ پڑھے گا یا نہیں پڑھے گا۔ہمارے علم کے مطابق فرض نفل سمیت ہر نماز کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا فرض اور واجب ہے،نمازی خواہ منفرد ہو،امام ہو یا مقتدی ہو۔کیونکہ سورۃ الفاتحہ  نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اور اس کے بغیر نماز نامکمل رہتی ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے اس میں فاتحۃ الکتاب نہیں پڑھی۔دوسری جگہ فرمایا:جس نے أم القرآن(یعنی سورۃ الفاتحہ)پڑھے بغیرنماز ادا کی تو وہ نماز ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، نا مکمل ہے۔یہ احادیث اور اس معنیٰ پر دلالت کرنے والی دیگر متعدد احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنا واجب اور ضروری ہے۔ زیر نظر کتاب’’ کتاب قرأة  خلف الام‘‘ امام ابو بكر  احمد بن حسين بیہقی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے  امام بیہقی رحمہ اللہ  نے   قرأة  خلف الام کا مسئلہ اس کتاب میں نہایت واضح ، آسان...

کل کتب 0

کل کتب 0

ایڈ وانس سرچ

اعدادو شمار

  • آج کے قارئین 28930
  • اس ہفتے کے قارئین 242520
  • اس ماہ کے قارئین 728712
  • کل قارئین97794016

موضوعاتی فہرست