اصولی طور پر کسی بھی کتاب یا تحریر کا اصل تشخص اس وقت تک قائم رہ سکتا ہے جب تک وہ اپنی ابتدائی صورت اور زبان والفاظ میں محدود ہو۔لیکن جب وہ اس دائرے سے نکل کر تراجم وتشریح کی حدود میں داخل ہوجائے تو اس وقت اس کی بنیادی حقیقت اور تشخص ختم ہوجاتا ہے۔پھر اس کو نام اور عنوان سے تعبیر نہیں سکتے بلکہ اسے ترجمہ یا تشریح یا حاصل کلام کہیں گے۔مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ "بائبل"اور اہل بائبل اس اصول اور ضابطہ کے پابند نہیں ہیں۔ان سے اصل متن مفقود ہوچکا ہے اور صرف تراجم ہی باقی رہ گئے ہیں،اور ان میں بھی ردوبدل اور کمی وبیشی کا عنصر نمایاں ہے۔لیکن انہوں نے تراجم کو ہی اصل نام اور عنوان دے دیا ہے۔اس کو ہر زبان میں بائبل ہی کہا جاتا ہے۔جبکہ قرآن مجید اپنی اصلی شکل اور الفاظ میں آج بھی اسی طرح محفوظ موجود ہے جس طرح نبی کریم ﷺ پر نازل ہوا تھا۔اب یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک کتاب جس کا متن ہی موجود نہ ہو اور پھر اس کے جو تراجم موجود ہوں وہ بھی باہم مختلف ہوں،وہ کتاب ہدایت اور نجات کا ذریعہ بن سکے۔زیر تبصرہ کتاب " نجات کا منصوبہ،قرآن یا بائبل &qu...