اللہ تعالیٰ نے جس پر زور طریقے سے شرک کی مذمت کی ہے کسی اور چیز کی نہیں کی ہے۔حتی کہ شرک کی طرف جانے والے ذرائع اور اسباب سے بھی منع فرما دیا ہے۔ابتدائے اسلام میں شرک کے اندیشے کے پیش نظر قبروں کی زیارت سے منع کردیا گیا تھا اور پھر عقیدہ توحید پختہ ہوجانے کے بعد اس کی اجازت دے دی گئی۔زیارتِ قبور ایک جائز ومستحب بلکہ مسنون عمل ہے۔ نبی کریم ﷺبھی قبروں کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے اور اہل قبور کے لیےدعا کرتے اور فرماتے تم قبروں کی زیارت کیاکرو، وہ دنیا سے بے رغبتی کا سبب بنتی ہیں اور آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔آخرت کی یاد سے دنیوی زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا احساس ہوتا ہے اور آخرت کی حقیقی زندگی کے لئے حسنِ عمل کا جذبہ اور رغبت پیدا ہوتی ہے۔ زیارتِ قبور یادِ آخرت کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے۔ شہرِ خاموشاں میں جاکر ہی بدرجۂ اتم یہ احساس ہوتا ہے کہ...
ساتوں آسمان دروازوں پر مشتمل ہیں اور ان دروازوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ان کا احصاء اور شمارممکن نہیں سوائے رب تعالیٰ کی ذات کے ان کی تعداد کوئی نہیں جانتا اور یہ تمام دروازے قیامت کے دن کھلیں گے اور اس کا علم اللہ کی ذات کو ہے کہ وہ کب آئےگی ۔آسمان کے بعض دروازے فرشتوں کے اترنے اور چڑھنے کےلیے کھلتے ہیں اور اسی وقت ہی بند کردئیے جاتے ہیں ۔لیکن بعض اعمال اور اوقات ایسے ہیں کہ جس وقت آسمان کے دروازے کھلے جاتے ہیں ۔جیسے کہ جامع ترمذی حدیث مبارکہ ہے عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي أَرْبَعًا بَعْدَ أَنْ تَزُولَ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَقَالَ: «إِنَّهَا سَاعَةٌ تُفْتَحُ فِيهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَأُحِبُّ أَنْ يَصْعَدَ لِي فِيهَا عَمَلٌ صَالِحٌ» ’’ سیدنا عبداللہ بن سا...
جنت اور جنہم دنیا میں کیے جانے والے اعمال کی جزا کا نام ہے-اپنے آپ کو اللہ کے حکموں کی پابندی کرنے والے اور اس کے احکامات کے مطابق اپنے زندگی بسر کرنے والوں کے لیے جزا کے طور پر جنت اور اس کی نافرمانی کرنے والوں کے لیےجزا کے طور پر جنہم مقرر کی گئی ہے-اس كتاب کےپہلے حصے میں اللہ تعالی کے مہمان خانے یعنی جنت کی سیر کا تذکرہ ہے جبکہ دوسرے حصے میں زمین پربنی جعلی اور خودساختہ بہشت کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا گیا ہے-تیسرے اور چوتھے حصے میں مصنف نے مزید دودرباروں پر ہونے والے مشاہداتی مناظر کا تفصیلی تذکرہ کیاہے-مثال کے طور پر ڈھول کی تھاپ پر اللہ کا ذکر،قبروں کا طواف،قبروں پر حج،بہشتی دروازے کی حقیقت اور لوگوں کا عقیدہ،درباروں اور مزاروں پر ہونے والے حیا سوز اور اخلاق سوز مناظر،ولیوں کی دھمالیں وغیرہ- اس کتاب کے مطالعے سے یہ بات بخوبی عیاں ہوجائے گی کہ موجودہ پرفتن اور آندھیوں کے دور میں اس درباری جہنم سے اللہ کی مخلوق کو نکال کر آسمانی جنت میں داخل کرنے کی کوشش کرنا کس قدر ضروری ہے-
شیخ الاسلام والمسلمین امام ابن تیمیہ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ ساتویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت تھے،آپ بہ یک وقت مفکر بھی تھے اور مجاہد بھی ، آپ نے اپنے قلم سے باطل کی سرکوبی کی۔ اسی طرح اپنی تلوار کو بھی ان کے خلاف خو ب استعمال کیا ۔ اورباطل افکار وخیالات کے خلاف ہردم سرگرم عمل او رمستعدر رہے جن کے علمی کارہائے نمایاں کے اثرات آج بھی پوری آب وتاب سے موجود ہیں۔آپ نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی نشرواشاعت ،کتاب وسنت کی ترویج وترقی اور شرک وبدعت اور مذاہب باطلہ کی تردید وتوضیح میں بسر کردی ۔امام صاحب علومِ اسلامیہ کا بحر ذخار تھے اور تمام علوم وفنون پر مکمل دسترس اور مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے۔آپ نے ہر علم کا مطالعہ کیا اور اسے قرآن وحدیث کے معیار پر جانچ کر اس کی قدر وقیمت کا صحیح تعین کیا۔آپ نے مختلف موضوعات پر 500 سے زائد کتابیں لکھیں۔ آپ کا فتاویٰ 37 ضخیم جلد وں میں مشتمل ہے زیر تبصرہ کتاب’’ اردو ترجمہ کتاب الوسیلہ‘‘امام ابن تیمیہ کی ان معرکۂ آراء تصنیفات میں سے ایک ہےجن میں امام نے بڑی تفصیل کے ساتھ بدعات اور عوام میں م...
دین اسلام شرک وبدعات ،افراط وتفریط اور غلو سے پاک دین ہے ۔شرعی دلائل کی رو سے شرک بہت خوفناک گناہ ہے ،جو انسان کو رب تعالیٰ سے دور کردیتا اور جہنم کاسزاوار قرار دیتا ہے ۔سو شرکیہ عقائد ونظریات سے بچنے اور وہ اسباب ومحرکات جو شرک کا ذریعہ بنیں ،کتاب وسنت کے دلائل ان سے گریز کرنے کی سخت تاکید کرتے ہیں اورانسانو ں کو شرکیہ وکفریہ اعمال و افعال سے اجتناب کی پرزور تلقین کرتے ہیں۔ان شرکیہ او رکفریہ نظریات میں سے انتہائی خطرناک عقیدہ قبرپرستی اورمزارات کی پوجا ہے ۔شریعت اسلامیہ نے قبروں پر قبے او رمزارات تعمیر کرنے سے منع کیا ہے اور قبروالوں سے حاجات پوری کرانے اور انہیں مشکلات میں پکارنے کو حرام قراردیاہے ،قبروں پر قبوں کی تعمیر اورمزارات سازی امت مسلمہ میں شرک کا بہت بڑا محرک ہے ،جس کی وجہ سے امت مسلمہ کی اکثریت شرک جیسے سنگین جرم میں ملوث ہے اورتقدس و عقیدت کی آڑ میں تمام شرکیہ و کفریہ کام جاری ہیں ۔زیرنظر کتاب قبروں کی پختہ تعمیر ،مزارات و درگاہوں کی تعمیر اور قبروں میں مدفون اولیا کرام کی پوجا پاٹ کی حرمت پر ایک شاندار علمی تصنیف ہے۔(ف۔ر)
اللہ اللہ تعالیٰ نے جس پر زور طریقے سے شرک کی مذمت کی ہے کسی اور چیز کی نہیں کی ہے۔حتی کہ شرک کی طرف جانے والے ذرائع اور اسباب سے بھی منع فرما دیا ہے۔ابتدائے اسلام میں شرک کے اندیشے کے پیش نظر قبروں کی زیارت سے منع کردیا گیا تھا اور پھر عقیدہ توحید پختہ ہوجانے کے بعد اس کی اجازت دے دی گئی۔زیارتِ قبور ایک جائز ومستحب بلکہ مسنون عمل ہے۔ نبی کریم ﷺبھی قبروں کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے اور اہل قبور کے لیےدعا کرتے اور فرماتے تم قبروں کی زیارت کیاکرو، وہ دنیا سے بے رغبتی کا سبب بنتی ہیں اور آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔آخرت کی یاد سے دنیوی زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا احساس ہوتا ہے اور آخرت کی حقیقی زندگی کے لئے حسنِ عمل کا جذبہ اور رغبت پیدا ہوتی ہے۔ زیارتِ قبور یادِ آخرت کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے۔ شہرِ خاموشاں میں جاکر ہی بدرجۂ اتم یہ احساس ہوتا ہے کہ موت کتنی بڑی حقیقت ہے جس کا مزہ ہر شخص چکھے گا۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک یہ سلسلہ جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا۔ جلیل القدر انبیاء ؑ مبعوث ہوئے اور باری باری موت...
دور ِحاضر میں مسلمانوں کے اندر بہت سی خرافات ورسومات نےجنم لے لیا ہے جن میں سے کسی آدمی کے فوت ہوجانے کے بعد ایصالِ ثواب کا مسئلہ بہت غلط رنگ اختیار کرچکا ہے بالخصوص قرآن خوانی کے ذریعے مردوں کوثواب پہنچانے کارواج عام ہے ۔ قرآن خوانی اورگٹھلیوں وغیرہ پر کثرت سے تسبیحات پڑھ کر مرنے والے کو اس کا ثواب بخشا جاتاہے ۔حتی کہ قرآنی خوانی اور ایصال ثواب توایک پیشہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پڑھنے کا میت کوثواب نہیں پہنچتا۔ البتہ قرآن پڑھنےکے بعد میت کے لیے دعا کرنے سے میت کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ہمارے ہاں جو اجتماعی طور قرآن خوانی ایک رواج ہے جس کا قرآن وحدیث سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ احادیث کی رو سے چند ایک چیزوں کا ثواب میت کو پہنچتا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔ 1۔کسی مسلمان کا مردہ کےلیے دعا کرنا بشرطیکہ دعا آداب وشروط قبولیت دعا کے مطابق ہو۔2 میت کے ذمے نذرکے روزے ہوں جو وہ ادا نہ کرسکا تو اس کی طرف سے روزے رکھنا بھی باعث ثواب ہے ۔3 نیک بچہ جوبھی اچھے کام کرے گا والدین اس کے ثواب میں شریک ہوں گے۔4مرنے کے بعد اچھے آثار اپنے پیچھے چھوڑجانے سےبھی...
مسلمانوں کی بڑی اکثریت اس بات کو مانتی ہے کہ ہم دعا کے ذریعے سے اپنی نیکیوں کا اجر اپنے مرحوم اعزہ کو دے سکتے ہیں۔ چنانچہ اس تصور کے مطابق ایک شخص یا کچھ لوگ کوئی نیک عمل کرتے ہیں۔ پھر یہ دعا کی جاتی ہے کہ اس نیک عمل کا اجر فلاں مرحوم یا فلاں فلاں مرحوم کو عطا کیا جائے۔ ہمارے ہاں، اس کام کے لیے کچھ رسوم بھی رائج ہیں اور ان میں یہ عمل بڑے اہتمام سے کیا جاتا ہے۔یہ مسئلہ دور اول ہی سے موضوع بحث ہے۔ چنانچہ اس بات پر توسب متفق ہیں کہ میت کواخروی زندگی میں ہمارے دو طرح کے اعمال سے فائدہ پہنچتاہے۔ایک دعاے مغفرت، دوسرے وہ اعمال خیر جو میت کی نیابت میں کیے جائیں۔نیابت سے مراد یہ ہے کہ مرنے والااس عمل میں کسی نہ کسی نسبت سے شریک ہے۔ اس کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں، مثلاً یہ کہ مرنے والے نے کوئی کام شروع کیا ہوا تھا اور تکمیل نہیں کر سکا، کوئی نذر مانی ہوئی تھی پوری نہیں کر سکا یا کوئی قرض تھا جسے وہ ادا نہیں کر سکا وغیرہ۔البتہ، اس میں اختلاف ہے کہ مرنے والے کی نسبت کے بغیر عمل کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے یا نہیں۔مراد یہ ہے کہ میت کے اعزہ واقارب اپنے طور پر کوئی نیکی...
عصرحاضر میں مسلمانوں کے اندر بہت سی خرافات ورسومات نےجنم لے لیا ہے جن میں سے کسی آدمی کے فوت ہوجانے کے بعد ایصالِ ثواب کا مسئلہ بہت غلط رنگ اختیار کرچکا ہے بالخصوص قرآن خوانی کے ذریعے مردوں کوثواب پہنچانے کارواج عام ہے ۔ قرآن خوانی اورگٹھلیوں وغیرہ پر کثرت سے تسبیحات پڑھ کر مرنے والے کو اس کا ثواب بخشا جاتاہے ۔حتی کہ قرآنی اور اایصال ثواب توایک پیشہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پڑھنے کا میت کوثواب نہیں پہنچتا۔ البتہ قرآن پڑھنےکے بعد میت کے لیے دعا کرنے سے میت کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ہمارے ہاں جو اجتماعی طور قرآن خوانی ایک رواج ہے جس کا قرآن وحدیث سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ احادیث کی رو سے چند ایک چیزوں کا ثواب میت کو پہنچتا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔
1۔کسی مسلمان کا مردہ کےلیے دعا کرنا بشرطیکہ دعا آداب وشروط قبولیت دعا کے مطابق ہو۔2 میت کے ذمے نذرکے روزے ہوں جو وہ ادا نہ کرسکا تو اس کی طرف سے روزے رکھنا بھی باعث ثواب ہے ۔3 نیک بچہ جوبھی اچھے کام کرے گا والدین اس کے ثواب میں شریک ہوں گے۔4مرنے کے بعد اچھے آثار اپنے پیچھے چھوڑجانے سےبھی میت ک...
حضور نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے اللہ تعالی کی وحدانیت کا درس دیا لیکن مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ نے بھی پہلی قوموں کی روش اختیار کرتے ہوئے شرک کی مختلف صورتوں کو اپنا لیا- زیر نظر کتاب میں مصنف نے ''کیا اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اور مشکل حل کرنے پر قادر ہے؟''سوال کی مختلف انداز میں دس شکلیں پیش کرتے ہوئے کتاب وسنت کی روشنی میں تسلی بخش جواب پیش کیاہے-جس میں انہوں نے اس چیز کو واضح کیا ہے کہ کیا اللہ کے علاوہ کوئی اور پکار کو سن سکتا ہے؟اگر سن سکتا ہے تو اس کی کیفیت کیا ہو گی؟کیا وہ سب کی پکار کو ایک ہی لمحے میں سن سکتا ہے؟کیا اس کو دنیا میں پائی جانے والی تمام زبانوں کے علم کا ہونا ضروری ہے یا نہیں-مصنف نے انتہائی سادہ انداز میں امت مسلمہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اہل قبور سے مانگنا ،ان کو تصرفات دینا اور اپنے معاملات میں ان کو بااختیار سمجھنا یہ سب شرک کی اقسام میں ہی آتا ہے –اسی طرح احناف کی معتبر کتب سے پائے جانے والی عقیدے کی خرابیوں کو واضح کیا ہے-جیسے قبروں کو پکا بنانا،ان کو بوسہ دینااور کسی ولی یا پیر فقیر کی قبر کے واسطے سفر کرنا ،ولی کےواسطے...
شریعت کی اصطلاع میں ہر وہ کام جسے ثواب یا برکت کاباعث یا نیکی سمجھ کر کیا جائے اور اس کا شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہ ہو بدعت کہلاتا ہے۔ یعنی نہ تویہ کام خود رسول اللہﷺ نے کیا ہواور نہ ہی کسی کو کرنےکا حکم دیا ،نہ ہی اسے کرنے کی کسی کواجازت دی ۔ بدعت کورواج دینا صریحاً اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور بدعات وخرافات کرنے والے کل قیامت کو حوض کوثر سے محروم کردیئےجائیں گے ۔ جس کی وضاحت فرمان ِنبوی میں موجو د ہے ۔ علامہ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ نے زیر نظر کتاب بعنوان’’ بدعات سنت کے میزان میں ‘‘ میں تقریبا دو درجن بدعات کی نشاندہی کی ہے اور ان کے محققانہ جائزہ بھی لیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی تدریسی وتبلیغی اور تحقیقی وتصنیفی جہود کو قبول فرمائے (م۔ا)
متنازعہ مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ بارہ ربیع الاول کو میلاد النبی ﷺ منانےکاہے بہت سارے مسلمان ہرسال ب12 ربیع الاول کو عید میلادالنبی ﷺ او رجشن میلاد مناتے ہیں ۔ لیکن اگر قرآن وحدیث اور قرونِ اولیٰ کی تاریخ کا پوری دیانتداری کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہےکہ قرآن وحدیث میں جشن عید یا عید میلاد کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ نبی کریم ﷺ نے اپنا میلاد منایا او رنہ ہی اسکی ترغیب دلائی ، قرونِ اولیٰ یعنی صحابہ کرام ﷺ ،تابعین،تبع تابعین کا زمانہ جنہیں نبی کریم ﷺ نے بہترین لوگ قرار دیا ان کے ہاں بھی اس عید کا کوئی تصور نہ تھا اورنہ وہ جشن مناتے تھے اور اسی طرح بعد میں معتبر ائمہ دین کےہاں بھی نہ اس عید کا کو ئی تصور تھا اور نہ وہ اسے مناتے تھے او ر نہ ہی وہ اپنے شاگردوں کو اس کی تلقین کرتےتھے بلکہ نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے جشن منعقد...
چند صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ ان مشہور بدعات کی نشاندہی کرتا ہے جن میں اکثر و بیشتر مسلمان شعوری یا لاشعوری طور پر گرفتار ہیں۔ جنازہ، قبر اور تعزیت سے متعلقہ اکثر بدعات کو بہت سے کتاب و سنت کے شیدائی بھی بدعات نہیں سمجھتے اور ان میں بالواسطہ یا بلا واسطہ شریک ہو جاتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتابچہ ان تمام احباب کیلئے انشاء اللہ سنت و بدعت کے درمیان تفریق کا شعور پیدا کرے گا۔
اللہ تعالیٰ نے جس پر زور طریقے سے شرک کی مذمت کی ہے کسی اور چیز کی نہیں کی ہے۔حتی کہ شرک کی طرف جانے والے ذرائع اور اسباب سے بھی منع فرما دیا ہے۔ شرک کا لغوی معنی برابری جبکہ شرک کی واضح تعریف جو علماء کرام نے کی ہے وہ یہ ہے کہ اَللہ تعالیٰ کے کسی وصف کو غیر اللہ کیلئے اِس طرح ثابت کرنا جس طرح اور جس حیثیت سے وہ اَللہ تعالیٰ کیلئے ثابت ہے ،یعنی یہ اِعتقاد رکھنا کہ جس طرح اَللہ تعالیٰ کا علم اَزَلی، اَبدی ، ذاتی اور غیر محدود ومحیطِ کل(سب کو گھیرے ہوئے ) ہے ،اِسی طرح نبی اورولی کو بھی ہے اور جس طرح اَللہ تعالیٰ جملہ صفاتِ کمالیہ کا مستحق اور تمام عیوب ونقائص سے پاک ہے ،اِسی طرح غیر اللہ بھی ہے تو یہ شرک ہو گا اور یہی وہ شرک ہے جس کی وجہ سے اِنسان دائرۂ اِسلام سے خارِج ہو جاتا ہے اور بغیر توبہ مرگیا تو ہمیشہ کیلئے جہنم کا اِیندھن بنے گا۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور نبی کریم ﷺ نے اپنی احادیث مبارکہ میں جس قدر شرک کی مذمت اور توحید کا اثبات کیا ہے اتنا کسی اور مسئلے پر زور نہیں دیا ہے۔سیدنا آدم ؑ سے لے کر نبی کریمﷺ تک ہر رسول و نبی نے اپنی...
ہر انسان خواہش مند ہے کہ وہ صراطِ مستقیم ‘ ہدایت یافتہ اور صحیح عقیدے کا حامل ہو۔یقین اور عقیدے کا انسان کے کردار پر گہرا اور لازمی اثر ہے۔جس شخص کا عقیدہ یہ ہے کہ ایمان اور اعمال صالحہ کے بغیر آخرت میں نجات نہیں مل سکتی وہ پوری محنت کے ساتھ ایمان کو حاصل کرے گا اور اعمال صالحہ کے لیے وقت اور سرمائے کو خرچ کرے گا۔اور یہی نجات کا محفوظ راستہ ہے۔البتہ اگر کسی کا عقیدہ بگڑ گیا اور اُس نے سمجھ لیا کہ فلاں صاحب کا وسیلہ کام دے دے گا یا فلاں ہستی کی شفاعت کام آجائے گی تو بھلا وہ کیوں کر مشقت اٹھا کر اعمال کی محنت کرے گا اور اپنی ذات وخواہشات کو پابندیوں میں جکڑے گا۔اس وقت ہمارا معاشرہ اسی غلط عقیدے کی وجہ سے بے عملی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بس رہے ہیں۔ زیرِ تبصرہ کتاب مصنف﷾ نے وسیلے کے عنوان پر ایک جامع ومدلل کتاب تالیف فرمائی ہے۔ اس عنوان کو جملہ تفصیلات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور روشن دلائل کو آسان زبان میں سمو دیا ہے۔ہر عنوان میں دیگر اہم شخصیات کی اہم تالیفات سے اقتباس بھی لیے گئے ہیں۔ حوالہ جات کا خاص اہتمام کیا گیا ہے‘ حوالے میں اصل مصدر...
ہر باشعور کا یقین ہے کہ آگ سے ہاتھ جل جاتا ہے‘ لہٰذا کوئی سمجھ دار جان بوجھ کر آگ کو ہاتھ نہیں لگاتا۔اسی طرح ہر انسان کا یقین ہے کہ مال ومتاع ضرورت پوری کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ ہر صاحب استطاعت انسان مال کمانے میں اپنی جان عزیز کا بڑا حصہ خرچ کر ڈالتا ہے۔ معلوم ہوا کہ یقین اور عقیدے کا انسان کے کردار پر گہرا اور لازمی اثر ہے۔جس کا عقیدہ ہے کہ ایمان اور اعمال صالح کے بغیر نجات ممکن نہیں تو وہ اپنا وقت اور سرمایہ اسی مقصد میں خرچ کرے گا اور جس کا عقیدہ بگڑ گیا کہ فلاں کے وسیلے سے کام چل جائے گا تو وہ بھلا کیوں مشقت کرے گا۔زیرِ تبصرہ کتاب میں اسی موضوع کو بیان کیا گیا ہے کہ وسیلہ کی کیا حقیقت ہے ؟ کتاب کو جامع ومدلل انداز میں تحریر کیا گیا ہے اور مضمون کی جملہ تفصلات کو دلائل میں سمو دیا ہے۔ وسیلہ کے مفہوم اور اس کی جائز وناجائز صورتوں کا بیان ہے اور وسیلے کی ناجائز صورتوں میں پیش کیے جانے والے دلائل کا جائزہ لیا گیا ہے۔ حوالہ جات بھی فٹ
وسیلہ کامطلب ہے ایسا ذریعہ استعمال کیا جائے جو مقصود تک پہنچا دے۔توسّل اور اس کے شرعی حکم کے بارے میں بڑا اضطراب واِختلاف چلا آ رہا ہے ۔کچھ اس کو حلال سمجھتے ہیں اورکچھ حرام ۔کچھ کو بڑا غلو ہے اور کچھ متساہل ہیں ۔اور کچھ لوگوں نے تو اس وسیلہ کے مباح ہونے میں ایسا غلو کیا کہ اﷲکی بارگاہ میں اس کی بعض ایسی مخلوقات کا وسیلہ بھی جائز قرار دے دیاہے ، جن کی نہ کوئی حیثیت ہے نہ وقعت ۔مثلاً اولیاء کی قبریں ،ان قبروں پر لگی ہوئی لوہے کی جالیاں ،قبر کی مٹی ،پتھر اور قبر کے قریب کا درخت۔اس خیال سے کہ ''بڑے کا پڑوسی بھی بڑا ہوتا ہے''۔اور صاحب قبر کے لئے اﷲکا اکرام قبر کو بھی پہنچتا ہے 'جس کی وجہ سے قبر کا وسیلہ بھی اﷲکے پاس درست ہوجاتا ہے ۔یہی نہیں بلکہ بعض متاخرین نے تو غیر اﷲسے استغاثہ کو بھی جائز قرار دے دیا اور دعویٰ یہ کیا کہ یہ بھی وسیلہ ہے 'حالانکہ یہ خالص شرک ہے جو توحید کی بنیاد کی خلاف ہے۔ جائز وسیلہ کی تین صورتیں ہیں جو کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اور وہ درج ذیل ہیں۔ 1۔اللہ تعالیٰ کے اسماء کا وسیلہ قرآن میں ہے: وَلِلَّهِ الْأَسْم...
مختلف مذاہب میں اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں اسی طرح دین اسلام میں اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیے نیک اعمال اور صدقہ جاریہ جیسے امور کو مقرر کیا گیا ہے-عقیدے کی خرابی کی وجہ سے کچھ لوگوں میں غلط ذرائع کو اختیار کر کے دین میں داخل کر کے ان کے ذریعے تقرب حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ سیدھا سا اصول ہے کہ ایک اچھے کام کے لیے غیر شرعی کام کا سہارا لینا حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا-مصنف نے اپنی کتاب میں اسی چیز کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کون سے ذرائع ہیں کہ جن کے ساتھ اللہ تعالی کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے اور وہ کون سے ناجائز امور ہیں جن کو اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا-اسی طرح وسیلہ کی لغوی تعریف،شرعی اور غیر شرعی وسیلہ کی پہچان کا طریقہ،کون سا وسیلہ اللہ کے ہاں قابل قبول ہے،شرعی وسیلہ کی اقسام کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور اسی طرح مخلوق کو وسیلہ بنانے کے بارے میں لوگوں کی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کیا گیا ہے-اور اس چیز کو ثابت کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے لیے کسی مخلوق کو وسیلہ کے طور پر پیش نہیں...
مسئلہ آخرت کاہو یا دنیا کاانسان ’’ وسیلہ‘‘ کامحتاج ہے ۔ وسیلہ زندگی کی ایک بنیادی حقیقت ہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کااعتراف ہرحقیقت پسند کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اہل یمان کووسیلہ کاحکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المائدہ) ’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو اوراس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ‘‘۔وسیلہ کامطلب ہے ایسا ذریعہ استعمال کیا جائے جو مقصود تک پہنچا دے۔توسّل اور اس کے شرعی حکم کے بارے میں بڑا اضطراب واِختلاف چلا آ رہا ہے ۔کچھ اس کو حلال سمجھتے ہیں اورکچھ حرام ۔کچھ کو بڑا غلو ہے اور کچھ متساہل ہیں ۔اور کچھ لوگوں نے تو اس وسیلہ کے مباح ہونے میں ایسا غلو کیا کہ اﷲکی بارگاہ میں اس کی بعض ایسی مخلوقات کا وسیلہ بھی جائز قرار دے دیاہے ، جن کی نہ کوئی حیثیت ہے نہ وقعت ۔مثلاً اولیاء کی قبریں ،ان قبروں پر لگی ہوئی لوہے کی جالیاں ،قبر کی مٹی ،پتھر ا...
دور ِحاضر میں مسلمانوں کے اندر بہت سی خرافات ورسومات نےجنم لے لیا ہے جن میں سے کسی آدمی کے فوت ہوجانے کے بعد ایصالِ ثواب کا مسئلہ بہت غلط رنگ اختیار کرچکا ہے بالخصوص قرآن خوانی کے ذریعے مردوں کوثواب پہنچانے کارواج عام ہے ۔ قرآن خوانی اورگٹھلیوں وغیرہ پر کثرت سے تسبیحات پڑھ کر مرنے والے کو اس کا ثواب بخشا جاتاہے ۔حتی کہ قرآنی اور اایصال ثواب توایک پیشہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پڑھنے کا میت کوثواب نہیں پہنچتا۔ البتہ قرآن پڑھنےکے بعد میت کے لیے دعا کرنے سے میت کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ہمارے ہاں جو اجتماعی طور قرآن خوانی ایک رواج ہے جس کا قرآن وحدیث سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ احادیث کی رو سے چند ایک چیزوں کا ثواب میت کو پہنچتا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ 1۔کسی مسلمان کا مردہ کےلیے دعا کرنا بشرطیکہ دعا آداب وشروط قبولیت دعا کے مطابق ہو۔2 میت کے ذمے نذرکے روزے ہوں جو وہ ادا نہ کرسکا تو اس کی طرف سے روزے رکھنا بھی باعث ثواب ہے ۔3 نیک بچہ جوبھی اچھے کام کرے گا والدین اس کے ثواب میں شریک ہوں گے۔4مرنے کے بعد اچھے آثار اپنے پی...
دور ِحاضر میں مسلمانوں کے اندر بہت سی خرافات ورسومات نےجنم لے لیا ہے جن میں سے کسی آدمی کے فوت ہوجانے کے بعد ایصالِ ثواب کا مسئلہ بہت غلط رنگ اختیار کرچکا ہے بالخصوص قرآن خوانی کے ذریعے مردوں کوثواب پہنچانے کارواج عام ہے ۔ قرآن خوانی اورگٹھلیوں وغیرہ پر کثرت سے تسبیحات پڑھ کر مرنے والے کو اس کا ثواب بخشا جاتاہے ۔حتی کہ قرآنی خوانی توایک پیشہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پڑھنے کا میت کوثواب نہیں پہنچتا۔ البتہ قرآن پڑھنےکے بعد میت کے لیے دعا کرنے سے میت کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ہمارے ہاں جو اجتماعی طور قرآن خوانی ایک رواج ہے جس کا قرآن وحدیث سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ احادیث کی رو سے چند ایک چیزوں کا ثواب میت کو پہنچتا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔1۔کسی مسلمان کا مردہ کےلیے دعا کرنا بشرطیکہ دعا آداب وشروط قبولیت دعا کے مطابق ہو۔2 میت کے ذمے نذرکے روزے ہوں جو وہ ادا نہ کرسکا تو اس کی طرف...
امت ِ مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ دینِ اسلام کامل ہے او راس میں کسی قسم کی زیادتی او رکمی کرنا موجب کفر ہے ۔اس لیے ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی نےہم مسلمانوں پر صرف اللہ اور اس کے رسول کے امر کوواجب قرار دیا ہے کسی اور کی بات ماننا واجب اور فرضم نہیں خاص طور پر جب اس کی بات اللہ اور اس کے رسولﷺ کے مخالف ہو۔زیارت ِ قبر نبوی سے متعلق سلف صالحین (- صحابہ ،تابعین،تبع تابعین) اور ائمہ کرام کا جو طرز عمل تھا وہ حدیث ،فقہ اور تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے فرمان نبویﷺ لاتشد الرحال إلا ثلاثة ( تین مسجدوں کے علاوہ عبادت اور ثواب کے لیے کسی اور جگہ سفر نہ کیا جائے ) کے پیشِ نظر قرونِ ثلاثہ میں کوئی رسول اللہ ﷺ یا کسی دوسرے کی قبر کی زیارت کے لیے سفر نہیں کرتا تھا ،بلکہ مدینہ میں بھی لوگ قبرنبوی کی زیارت کے باوجود وہاں بھیڑ نہیں لگاتے او رنہ ہی وہاں کثرت سے جانے&nbs...
دین اسلام کی اساس عقیدہ توحید پر ہےلیکن صد افسوس کہ امت محمد ﷺ میں سے بہت سے لوگ مختلف انداز میں شرک جیسے قبیح فعل میں مبتلا ہیں- سماع موتٰی یعنی مُردوں کے سننے کا مسئلہ شرک کا سب سے بڑا چور دروازہ ہے- موجودہ دور میں یہ مسئلہ اس قدر سنگینی اختیار کر گیا ہے کہ قائلین سماع موتٰی نہ صرف مردوں کے سننے کے قائل ہیں بلکہ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ مردے سن کر جواب بھی دیتے ہیں اور حاجات بھی پوری کرتے ہیں-زیر نظر کتاب میں سماع موتی سے متعلق تمام اشکالات کا حل کتاب وسنت کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے-کتابچہ سوال وجواب کی صورت میں مرتب کیا گی ہے جو افہام وتفہیم کا آسان ترین ذریعہ ہےمعمولی پڑھا لکھا آدمی بھی باآسانی مستفید ہوسکتا ہے-جس میں لوگوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے مختلف شبہات کو سوال کی صورت میں پیش کر کے قرآن سنت کی راہنمائی کو جواب کی صورت میں پیش کیا ہے-
عقیدہ عذاب قبر قرآن مجید،احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔جس طرح دنیا میں آنے کے لئے ماں کا پیٹ پہلی منزل ہے،اور اس کی کیفیات دنیا کی زندگی سے مختلف ہیں،بعینہ اس دنیا سے اخروی زندگی کی طرف منتقل ہونے کے اعتبار سے قبر کا مقام اور درجہ ہے،اوراس کی کیفیات کو ہم دنیا کی زندگی پر قیاس نہیں کر سکتے ہیں۔اہل وسنت والجماعت کے عقیدے کے مطابق عذاب قبر بر حق ہے اور اس پر کتاب وسنت کی بہت سی براہین واضح دلالت کرتی ہیں لیکن اسلام کی خانہ زاد تشریح پیش کرنے والے بعض افراد قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے سر مو انحراف کرتے ہوئے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس کا انکار کر دیتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ عذاب قبر کی حقیقت ‘‘ کراچی کی معروف علمی شخصیت ڈاکٹر ابوعبد اللہ جابر دمانوی ﷾ کی کتاب’’ الدین الخالص‘‘ کا اختصار وانتخاب ہے جس میں انہوں نے منکرین حدیث اور منکرین عذاب کے رد کیا اور عقیدہ اثبات عذاب پر قرآن وحدیث سے ٹھوس دلائل پیش کیے ہیں ۔ محدث العصر حافظ زبیر علی زئی کے اس کتاب کا علمی مقدمہ تحریر کرنے سےکتاب کی افادیت مزید دو چند ہوگ...
غیبت یہ ہے کہ کسی شخص کے برے وصف کو اس کی عدم موجودگی میں اس طرح بیان کریں کہ اگر وہ سن لے تو برا مانے اگر وہ عیب اس میں موجود نہیں تو یہ تہمت اور بہتان ہے۔غیبت اس قدر قبیح جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غیبت کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مثل قرار دیا ہے۔ زیر نظر کتابچہ ’’ غیبت کے نقصانات اور چغل خور کا انجام‘‘ محمد اسماعیل ساجد کا مرتب شدہ ہے ۔فاضل مرتب نے اس کتابچہ میں معاشرے میں پا ئی جانے والی دو قبیح برائیاں غیبت اور چغلخوری کے نقصانات کو قرآن وسنت کی روشنی میں آسان فہم انداز میں بیان کیا ہے۔(م۔ا)