علامہ جاوید احمد غامدی صاحب اپنے تجدد پسندانہ نظریات کے حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ میڈیا کی کرم فرمائی کی وجہ سے علامہ صاحب کو روشن خیال طبقوں میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ علامہ صاحب کےگمراہ کن اور منہج سلف سے ہٹے ہوئے نظریات پر بہت سے لوگوں نے مختلف انداز میں تنقید کی ہے۔ ڈاکٹر حافظ زبیر صاحب کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے غامدی صاحب کے خوشنما افکار کی قلعی کھولنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ نے نہایت سنجیدہ اور علمی انداز میں ہر فورم پر غامدی صاحب کے نظریات کو ہدف تنقید بنایا۔ زیر تبصرہ کتاب غامدی صاحب اور اہل سنت کے اصول استنباط اور قواعد تحقیق کے ایک تقابلی مطالعہ پر مشتمل ہے۔ یعنی اس کتاب میں غامدی صاحب کے اختیار کردہ اصولوں پر نقد کیا گیا ہے فروعات کو موضوع بحث نہیں بنایا گیا ہے۔ غامدی صاحب کے افکار پر نقد دو اعتبارات سے کیا گیا ہے۔ ایک کتاب و سنت کی روشنی میں اور دوسرا خود غامدی صاحب کے اصولوں کی روشنی میں۔ حافظ صاحب خاصیت ہےکہ شخصیات پر تنقید سے گریز کرتے اور ممکن حد تک نرم انداز میں گفتگو کرتے ہیں اور صرف نظریات کو موضوع بحث بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ...
فتنہ انکار حدیث تاریخ اسلام میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں خوارج اور معتزلہ نے پیدا کیا۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں سنت رسول ﷺ حائل تھی۔ لہذا نہوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دوگونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کا مسئلہ یہ تھا کہ یونانی فلسفے نے اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے جو شکوک و شبہات عقل انسانی میں پیدا کر دیے تھے، وہ انہیں سمجھنے سے پہلے ہی حل کر دینا چاہتے تھے لہذا انہوں نے فلسفہ کے نام سے منقول ہر بات کو عقل کا لازمی تقاضا سمجھا اور اسلامی عقائد اور اصول و احکام کی ایسی تعبیر کرنا شروع کر دی جو ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو۔ اس راہ میں پھر حدیث و سنت حائل ہوئی تو انہوں نے بھی خوارج کی طرح حدیث کو مشکوک ٹھہرایا اور سنت کو حجت ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ فتنہ درمیان میں کئی صدیوں تک اپنی شمشان بھومی میں پڑا رہا یہاں تک کہ تیرہویں صدی ہجری میں وہ دوبارہ زندہ ہوا۔ پہلے یہ مصر و عراق میں پیدا ہوا اور اس نے دوسرا جنم برصغیر پاک و...
برصغیر میں عبداللہ چکڑالوی نے سب سے پہلے انکار حدیث کے فتنہ کی تخم ریزی کی، حافظ اسلم جیراجپوری اور غلام احمد پرویز نے اس کی آبپاشی کی اور اپنے افکار و نظریات کی بنیاد انکار حدیث پر رکھی۔ چنانچہ انھوں نے علی الاعلان کہا کہ حجت شرعیہ صرف قرآن کریم ہے دینی معاملات میں حدیث حجت نہیں، اور اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ حدیث کا استہزا کیا اور اس کے لیے گستاخی کے جملے بولے۔ علمائے کرام نے فتنہ پرویزیت کا ادراک کرتے ہوئے ان کے لٹریچر کا بھرپور تعاقب کیا اور مسکت جوابات دئیے۔ تحریک رد پرویزیت کے سلسلے میں جو علمی تحقیقی کام ہوا اور ملک کےاخبارات وجرائد میں چھپا اس کی یکجا کتابی شکل اس وقت آپ کے سامنے ہے۔ تاکہ علمی وتحریکی حضرات ایک مجموعے سے باآسانی استفادہ کر سکیں۔ (عین۔ م)
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع ِ انسان کی رشد وہدایت کے لیے انبیاء ورسل کو اس کائنات میں مبعوث کیا،تاکہ ان کی راہنمائی کی بدولت اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا جاسکے۔انسان اپنے تیئں کتنی ہی کوشش اور محنت کیوں نہ کرلے، اسے اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہوسکتی جب تک وہ زندگی گزارنے کے لیے اسی منہج کو اختیار نہ کرے جس کی انبیاء نے تعلیم دی ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہر رسول کی بعثت کا مقصد صرف اس کی اطاعت قراردیا ہے ۔جو بندہ بھی نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کرے گا تو اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جو انسان آپ کی مخالفت کرے گا ،اس نے اللہ تعالی کے حکم سے روگردانی کی ۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا(الحشر:7) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ِعالی شان کی بدولت صحابہ کرام ،تابعین عظام اور ائمہ دین رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو قرآنی حکم سمجھا کرتے تھے اور قرآن وحدیث دونوں کی اطاعت کویکساں اہمیت وحیثیت دیا کرتے تھے ،کیونکہ دونوں کا منبع ومرکز وحی الٰہی ہے ۔عمل...
بی بی عائشہ ؓ کے نکاح کے وقت ان کی عمر چھ سال ہونے پر قدیم زمانے سے تمام امت اسلامیہ کا اجماع رہا ہے اور صرف اس مغرب زدہ دور میں کچھ لوگ ایسے پیدا ہوئے ہیں جو ناموس رسالت اور ناموس صحابہ کی دہائی دےکر اس کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا اور کروانا چاہتے ہیں تاکہ کسی طرح صحیح احادیث کے انکار کا دروازہ کھل جائے اور اگر ایک بار یہ دروازہ کھل گیا تو پھر خواہش پرست لوگ جس حدیث کو چاہیں گے قبول کریں گے اور جس کو چاہیں گے رد کر دیں گے اس طرح وہ دین کو موم کی ناک بنا کر جس طرح چاہیں موڑ سکیں گے۔ بی بی عائشہ ؓ کی عمر سے متعلق وارد تمام احادیث صحت کے اعلیٰ درجہ پر اور متواتر ہیں اس کے باوجود کچھ لوگ اس سلسلہ میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں عطاء اللہ ڈیروی نے اس مسئلہ کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔(ع۔م)
اس کتاب میں مسئلہ تقدیر پر منکرین حدیث کے بے بنیاد شبہات و اعتراضات پر جامع و مدلل رد و تنقید ہے۔ اہم مباحث میں دین اور مذہب میں فرق , خلق و امر کی بحث , لفظ گمراہی کا لغوی و اصطلاحی معنی , قانو ں , تدبر قرآن , تقدیر میں پرویزی کا معنی , تشریح اور طریقہ کا ر , ہدایت و ضلالت کی بحث , تقدیر پر ایمان کا باہمی تعلق , عمر فاروق ؓکا قول , انسان میں نیکی اور بدی کی تمیز , ابن عباس ؓکی تفسیر , تقدیر اور تدبیر کا باہمی تعلق , منکرِ تقدیر کا اقرار تقدیر جیسے تمام مسائل شامل ہیں۔
احادیث کی حجیت اور اس کے ماخذ دین ہونے سے انکار کرنے والے منکرین حدیث جو انکار حدیث کی آڑ میں اصل اسلام ہی سے انحراف کرنا چاہتے ہیں، کے پیش کردہ اصولوں کے رد میں اس کتاب میں بطور مثال ان سے چار سوالات کیے گئے ہیں کہ اگر حدیث بھی قراان کی طرح وحی الٰہی اور قرآن کی تفسیر و توضیح اور اس کے مجملات کی تفصیل نہیں ہے تو قرآن میں مذکور چار مجمل باتوں کی وضاحت کی جائے کہ قرآن حکیم میں ان چار باتوں کا ذکر کہاں ہے جن کی طرف قرآن نے فقط اشارہ کیا ہے؟ اس اعتبار سے یہ کتاب نہایت فاضلانہ اور منکرین حدیث کے لیے ایک زبردست چیلنج ہے۔
قرآ ن ِ مجید کے بعد حدیث نبویﷺ اسلامی احکام اور تعلیمات کا دوسرا بڑا ماخذ ہے۔ بلکہ حقیقت تویہ کہ خود قرآن کریم کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا ،اس سے احکام اخذ کرنا اور رضائے الٰہی کے مطابق اس پر عمل کرنا بھی حدیث وسنت کی راہنمائی کے بغیر ممکن نہیں ۔لیکن اس کے باوجود بعض گمراہ ا و رگمراہ گر حضرا ت حدیث کی حجیت واہمیت کومشکوک بنانے کی ناکام کوششوں میں دن رات مصروف ہیں او رآئے دن حدیث کے متعلق طرح طرح کے شکوک شبہات پیدا کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن الحمد للہ ہر دور میں علماء نے ان گمراہوں کاخوب تعاقب کیا اور ان کے بودے اور تارِعنکبوت سےبھی کمزور اعتراضات کے خوب مدلل ومسکت جوابات دیے ہیں ۔منکرین کےرد میں کئی کتب اور بعض مجلات کے خاص نمبر ز موجود ہیں ۔ ان کتب میں سے دوام حدیث ،مقالات حدیث، آئینہ پرویزیت ، حجیت حدیث ،انکا ر حدیث کا نیا روپ وغیرہ اور ماہنامہ محدث ،لاہور ،الاعتصام ، ماہنامہ دعوت اہل حدیث ،سندھ ،صحیفہ اہل حدیث ،کراچی کے خاص نمبر بڑے اہم ہیں ۔ زیر نظر کتاب ''منکرین حدیث کے شبہاب اور ان کارد '' معروف مصنف ومترجم کتب کثیرہ جناب پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی...
فلسفہ اور سائینٹیفک نظریات نیز مغربی مادی ترقی سے مرعوبیت زدہ ذہن لئے ہوئے اور اتباع نفس کے تحت قرآنی آیات کی من مانی تحریف نما تاویل کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے موجودہ دور کے نام نہاد اہل قرآن (منکرین حدیث) رسول اکرم ﷺ کی ثابت شدہ سنتوں میں تشکیک پیدا کرکے سنت کو ناقابل اعتبار قرار دینے کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں منکرین حدیث کی طرف سے بتکرار و شدت پیش کئے جانے والے بنیادی نوعیت کے چار اعتراضات کا تسلی بخش جواب دیا گیا ہے۔ وہ سوالات یہ ہیں:
1۔ کیا "ظن" دین بن سکتا ہے۔
2۔ کیا واقعی حدیث اور تاریخ ایک ہی سطح پر ہیں یا ان میں کچھ فرق ہے؟ (تقابلی جائزہ)
3۔ کثرت احادیث مثلاً یہ اعتراض کہ امام بخاری ؒ کو چھ لاکھ احادیث یاد تھیں۔ وہ آ کہاں سے گئیں اور پھر گئیں کدھر؟
4۔ طلوع اسلام والوں کے ہاں معیار حدیث کیا ہے؟
یہ کتاب دراصل منکرین حدیث کے خلاف لکھی گئی مبسوط کتاب "آئینہ پرویزیت" کا ایک باب ہے۔ جسے اس کی اہمیت کے پیش نظر علیحدہ سے شائع کیا گیا ہے۔
اقامت صلوٰۃ سے مراد اور مقصود ادائے صلوٰۃ کے تربیتی ، اثرات اپنی عملی زندگی میں رائج اور نافذ کرنا ہیں لیکن اہل قرآن (منکرین حدیث ) کے نزدیک صلاۃ کا معنیٰ’’فلاحی نظام حکومت کا قیام‘‘، یا درس و اجتماع یا دعا ء وغیرہ ہے منکرین حدیث کی طرف سے لفظ صلوۃ کی یہ فرضی تشریح عربی لغت اور قرآن و حدیث کے صریحاً خلاف ہے۔ زیر نظر کتاب’’منکرین صلوٰۃ پر دہریت کے اثرات ‘‘ جناب ظفر اقبال خان صاحب کی تصینف ہے ۔ فاضل مصنف نے اس کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کر کے اس میں اہل قرآن کے تمثیلی او روحدۃ الوجودی الحاد’’فتنہ انکار صلاۃ‘‘ کو نمایاں کیا ہے۔ابواب کےعنوانات حسب ذیل ہیں۔ باب اول :منکرین صلوٰۃ پر دہریت کے اثرات ،باب دوم:منکرین صلاۃ کے اعتراضات کے جوابات،باب سوئم :منکرین اطاعت واتباع رسول پر داہریت کے اثرات، باب چہارم:اراکین مرکز اسلامیہ پر اہل قرآن کے اثرات ،باب پنجم: اہل قرآن کے تصور رسالت وصلاۃ پر ارسطو اور ابن عربی کے اثرات۔(م ۔ا)
عصر حاضر کے فتنوں میں سے جو فتنہ اس وقت اہل اسلام میں سب سے زیادہ خطرناک حد تک پھیل رہا ہے وہ انکار حدیث کا فتنہ ہے۔ اس کے پھیلنے کی چند وجوہات عام ہیں پہلی وجہ یہ ہے کہ منکرین حدیث نے روافض کی مانند تقیہ کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ یہ براہ راست حدیث کا انکار نہیں کرتے بلکہ خود کو اہل قرآن یا قرآنی تعلیمات کے معلم کہلاتے ہوئے اپنے لٹریچر میں قرآن ہی پر اپنے دلائل کا انحصار کرتے ہوئے اپنے سامعین و ناظرین کو یہ ذہن نشین کرانے کی سعی کرتے ہیں کہ ہدایت کے لئے تشریح کے لئے ' تفسیر کے لئے ، سمجھنے کے لئے اور نصیحت حاصل کرنے کے لئے قرآن کافی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے اس کے علاوہ کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہیں۔قرآنی تعلیمات کے یہ معلم اپنے لیکچرز اور لٹریچر میں کسی دوسری کتاب کی تفصیل اور گہرائی میں نہیں جاتے لیکن وہ چند مخصوص قرآنی آیات کو بطور دلیل استعمال کرتے ہوئے اپنے سامعین و ناظرین و قارئین کو یہ باور کرانے کی بھر پور جدوجہدکرتے ہیں کہ قرآن کے علاوہ پائی جانے والی دیگر کتب اختلافات سےمحفوظ نہیں جبکہ قرآن میں کوئی بھی کسی قسم کا اختلاف موجود نہیں ہے یہ اس ب...