برصغیر پاک وہند کے معروف سیرت نگار اور مؤرخ مولانا سید سلیمان ندوی اردو ادب کے نامور سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور چند قابل قدر کتابوں کے مصنف تھے جن میں سیرت النبی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔مولانا سید سیلمان ندوی ضلع پٹنہ کے ایک قصبہ دیسنہ میں 22 نومبر 1884ء کو پیدا ہوئے۔تعلیم کا آغاز خلیفہ انور علی اور مولوی مقصود علی سے کیا۔ اپنے بڑے بھائی حکیم سید ابو حبیب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ 1899ء میں پھلواری شریف (بہار (بھارت)) چلے گئے جہاں خانقاہ مجیبیہ کے مولانا محی الدین اور شاہ سلیمان پھلواری سے وابستہ ہو گئے۔ یہاں سے وہ دربانگا چلے گئے اور مدرسہ امدادیہ میں چند ماہ رہے۔1901ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں داخل ہوئے جہاں سات سال تک تعلیم حاصل کی۔ 1913ء میں دکن کالج پونا میں معلم السنۂ مشرقیہ مقرر ہوئے۔1940ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند عطا کی۔ عالمِ اسلام کو جن علماء پر ناز ہے ان میں سید سلیمان ندوی بھی شامل ہیں۔ انکی علمی اور ادبی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ان کے استاد علامہ شبلی نعمانی سیرت النبی کی پہلی دو جلدیں لکھ کر 18 نومبر 1914ء کو انتقال کر گئے تو باقی چار جلدیں سید سلیمان ندوی نے مکمل کیں۔سید سلیمان ندوی نے مستقل تصانیف کے علاوہ مذہبی،علمی وتحقیقی اور ادبی مختلف موضوعات پر سیکڑوں مضامین تحریر کیے جو علوم ومعارف کا گنجینہ ہیں ۔ اپنے شفیق استاد کی وصیت پر ہی دار المصنفین، اعظم گڑھ قائم کیا اور ایک ماہنامہ معارف جاری کیا جو آج بھی جاری وساری ہے ۔ زیر نظر کتاب’’ مقالاات سلیمان حصہ دوم ‘‘ سید سلیمان ندوی کے شاہ معین الدین احمد ندوی کی مرتب شدہ ہے اس کتاب میں انہوں نے تقریبا52؍سال قبل اپنے استاد گرامی رحمہ اللہ کے 22علمی وتحقیقی مضامین کو یکجا کر کے شائع کیا ان مضامین میں اگرچہ بڑا تنوع ہےلیکن ا ن کا مرکزی نقظہ اسلامی علوم وفنون اور اسلامی تاریخ وتہذیب کی مرقع کشی اور اس کی تحقیق وتنقید ہے۔یہ مضامین مسلمانوں کی علمی تاریخ کا بیش بہا خزانہ ہیں ۔یہ’’ مقالات سیدسلیمان ندوی ‘‘کا دوسرا حصہ ہےاگر کسی پاس اس کے باقی حصے ہوں تو وہ عنائت کریں تاکہ انہیں بھی سائٹ پر پبلش کر کے افادۂ عام کے لیے محفوظ کردیا جائے (م۔ا)
عنوان |
صفحہ |
دیباچہ: ازشاہ معین الدین احمد ندوی |
1۔2 |
ہندوستان میں علم حدیث |
3۔55 |
فرنگی محل اور علم حدیث |
55۔64 |
ہندوستان میں علم حدیث کی تاریخ کے گم شدہ اوراق |
64۔73 |
ہندوستان میں کتب حدیث کی نایابی کے بعض واقعات |
74۔80 |
رباعی |
81۔110 |
محمد بن عمر الواقدی اور سیرت میں علمائے مستشرفین کی ایک نئی غلطی |
111۔138 |
پھر واقدی (امام زہری پر الزام) |
139۔165 |
سنت |
166۔183 |
پھر بحث سنت (کچھ اور اختراعات والزامات) |
184۔196 |
عرب و امریکہ |
197۔234 |
اسلامی رصد خانے |
235۔265 |
کتب خانہ اسکندریہ |
266۔288 |
اسلامی ہندوستان کاعہد آخر اور علموم جدیدہ |
289۔305 |
رومن کیتھولک تاریخ کی چند من گھڑک کہانیاں |
306۔318 |
مرزا بیدل کیا عظیم آبادی نہ تھے؟ |
319۔331 |
حکیم سنائی کےسنین عمر |
332۔341 |
حجاز کے کتب خانے |
342۔378 |
سفر گجرات کی چند یادگاریں |
379۔396 |
انڈیا آفس لائبریری میں اردو کا خزانہ |
397۔407 |
کتب خانہ حمیدیہ بھوپال |
408۔414 |