علوم کےمیدان میں تاریخ کاایک اپنامقام ہے۔بالخصوص دور جدید میں جب اجتماعی اور معاشرتی علوم نےایک خاص اہمیت اختیا ر کی ہےتو اس میں تاریخ کی اور زیادہ اہمیت بڑھ گئی ہے۔چناچہ اس سلسلے میں قدیم اور جدید تاریخ نگاروں میں جو خاص فرق آیا ہے وہ یہ ہےکہ پہلے دور میں تاریخ کو شخصیات کےحساب سےلکھاجاتاتھاجبکہ آج کے دور میں تاریخ علوم وفنون اور عام عوام کے حساب سےلکھاجانا پسند کیاجاتاہے۔زیرنظرکتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں راقم الحروف نے ہندستانی تاریخ کا خاص باب عہدمغلیہ کو لکھاہے اور علوم وفنون کےاعتبارسے لکھنےکی کوشش کی ہے۔یہ بہت زیاد ہ مشقت طلب کام ہے۔بلکہ بقول مولاناشبلی رحمۃ اللہ علیہ چیونٹیوں کےمنہ سےدانہ دانہ جمع کرکےخرمن تیارکرناپڑتاہے۔اور بقول مصنف کےقصہ نویسی اورخوش اعتقادی کی کہرتمام لٹریچر پرچھا ئی ہوئی ہے۔جس کےاندر نہ مختلف اولیا ئے کرام کےجداگانہ خدوخال نظرآتےہیں اور نہ ان کےعملی کارناموں سے صحیح واقفیت ہوتی ہے۔تاہم پھر بھی مصنف نے حتی الوسع اس پر بطریق احسن اور واضح انداز میں روشنی ڈالنےکی کو شش کی ہے۔اللہ انہیں جزائے خیر سےنوازے۔آمین۔(ع۔ح)
...
مولانا ابو الکلام آزاد کسی تعارف کے محتاج نہیں ہے، وہ برصغیر پاک و ہند میں برطانوی اقتدار اور تقسیم ہند کے ایک اہم چشم دید گواہ ہیں۔ ایک زمانہ میں جناب ہمایوں کبیر صاحب نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ انگریز سے ہندوستان کی آزادی کی تاریخ کو اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں مرتب کریں تا کہ آئندہ نسل تک صحیح حقائق ایک مستند ذریعہ سے پہنچ سکیں تو مولانا نے پہلے تو اس سے معذرت کی لیکن پھر اصرار پر جناب ہمایوں کبیر صاحب کو آزادی ہند کی تاریخ زبانی مرتب کروائی جسے ہمایوں کبیر صاحب نے انگریزی میں "انڈیا ونس فریڈم' کے نام سے مرتب کیا اور اس کی نظر ثانی مولانا ابو الکلام ؒ سے کروائی۔ بعد ازاں اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی 'آزادی ہند' کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں تاریخی واقعات کے ساتھ ساتھ مولانا کے ذاتی نظریات اور افکار کا بیان بھی موجود ہے اگرچہ اس کتاب میں مولانا ابو الکلام آزاد ؒ کے بیان کردہ جمیع تصورات سے اتفاق ممکن نہیں ہے لیکن اس کتاب کو شائع کرنے کا مقصد یہی تھا کہ اس کتاب کا مولانا کے تصورات سے واقفیت کی بجائے ایک تاریخی ورثہ کے طور پر مطالعہ کیا جائے تا...
ارتھ شاستر کوتلیہ چانکیہ کی تصنیف ہے جو ایک برہمن گھرانے میں پیدا ہوا ۔اس کتاب کا زمانہ تصنیف 311سے 300ق۔م کے درمیان ہے۔’ارتھ شاستر‘نے برصغیر کے تمدن اور اسلوب سیاست پر گزشتہ دو ہزار سال کے دوران جو اثرات مرتب کیے ہیں ان کے نقوش آئندہ کئی صدیوں تک بھی واضح رہیں گے۔کوٹلیہ نے اس کتاب میں قدیم ہندوستانی تمدن کے ہر پہلو کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا ہے۔علوم وفنون ،زراعت،معیشت،اردواجیات،سیاسیات،صنعت وحرفت ،قوانین،رسوم ورواج،توہمات،ادویات،فوجی مہارت،سیاسی وغیر سیاسی معاہدات اور ریاست کے استحکام سمیت ہر وہ موضوع کوتلیہ کی فکر کے وسیع دامن میں سماگیا ہے جو سوچ میں آسکتا ہے ۔علم سیاسیت کے پنڈت کہیں کوتلیہ کو اس کی متنوع علمی دستگاہ کی وجہ سے ہندوستان کا ارسطو کہتے ہیں اور کہیں ایک نئے اور واضح تر سیاسی نظام کا خالق ہونے کے باعث اس کا موازنہ میکاولی سے کیا جاتا ہے ۔بہر حال یہ کتاب اس کے افکار ونظریات کو سمجھنے کا معتبر ماخذ ہے۔(ط۔ا)
حکیم سید عبد الحی ندوی عالم اسلام کے معروف اسلامی سکالر و ادیب،مصنف کتب کثیرہ مولانا سید ابو الحسن ندوی کے والد گرامی ہیں۔ موصوف اپنے وقت کے معروف عالم دین اور مؤرخ تھے مولانا عبد الحی صاحب کی آٹھ جلدوں میں مبسوط نزھۃ الخواطر کو آج بھی دینی وعلمی حلقوں میں حوالے کی کتاب کے طور پر بلند مقام حاصل ہے۔ اس میں انھوں نے ساڑھے چار ہزار سے زائد شخصیات کے حالات قلمبند کئے ہیں اس کے علاوہ گل رعنا اور معارف الموارف فی انواع العلوم و المعارف (عربی) جیسی ان کی تصانیف برصغیر پاک وہند کے علمی ذخیر ے میں امتیازی شان کی حامل ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’اسلامی علوم و فنون ہندوستان میں ‘‘مولانا حکیم سید عبد الحی کی ہندوستان کی تہذیب وثقافت کے متعلق تصنیف کردہ عربی کتاب ’’الثقافۃ الاسلامیہ فی الہند‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے استاذ مولاناابو العرفان ندوی نے کیا ہے یہ ترجمہ پہلے 1970ء میں شائع ہوا تھا زیر تبصرہ ایڈیشن اسی کا جدید معیاری ایڈیشن ہے جسے دار المصنفین نے 2009ء میں شائع کیا ہے۔...
ہندوستان میں عہدسلطنت اسلامی بہت سے خصوصیات کا حامل ہے ۔اس دور میں جہاں سیاسی وانتظامی اداروں کوترقی ملی مسلم حکومت کی توسیع کا سلسلہ جاری ر ہا وہاں اس سلطنت اسلامی کے دور میں علوم وفنون میں بڑی ترقی کی۔اس عہد اسلامی میں اہل علم وفن کے لیے ایسا ساز گار ماحول فراہم ہواکہ وہ اپنے اپنے میدانوں میں علمی خدمات انجام دے کر مختلف علوم وفنون کے فروغ کا ذریعہ بن سکیں۔ عہد سلطنت کے ابتدائی دور میں علوم وفنون کا فروغ دہلی ودوسرے مقامات پر سکونت اختیار کرنے والے بیرونی علماء کی مرہون منت رہا۔ رفتہ رفتہ ہند نژاد تعلیم یافتہ مسلمان اس لائق ہوگئے کہ وہ تدریسی وتالیفی کاموں حصہ لے سکیں۔علماء وقت نےتدریس کے مشغلہ کو ایک عظیم دینی خدمت سمجھا اور بڑے ذوق وشوق سے اس میں حصہ لیا تو معاصر حکمرانوں نے اس خدمت انجام دینے والوں کی سرپرستی فرمائی اور مکاتب ومدارس کے قیام وانصرام میں کافی دلچسپی لی ۔ علماء کی کوششوں اور اہل علم کے سلسلہ میں سلاطین کےحوصلہ افزا رویّہ کا نتی...
قوموں کی زندگی میں تاریخ کی اہمیت وہی ہے جو کہ ایک فرد کی زندگی میں اس کی یادداشت کی ہوتی ہے۔ جس طرح ایک فرد واحد کی سوچ، شخصیت، کردار اور نظریات پر سب سے بڑا اثر اس کی یادداشت کا ہوتا ہے اسی طرح ایک قوم کے مجموعی طرزعمل پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز اس کی تاریخ ہوتی ہے ۔ جس طرح ایک فرد اپنے زندگی کے اہداف و مقاصد اپنی یاداشت کی روشنی میں طے کرتا ہے اسی طرح قوموں کے بحیثیت مجموعی اہداف و مقاصد کے تعین میں سب سے بڑا عمل دخل اس کی تاریخ کا ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر قوم کا اپنی تاریخ سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔اور قوموں کی مجموعی نفسیات کے معاملے میں بھی تاریخ کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ قوم یہود کی ہی مثال لیجیے جو حضرت سلیمان اور حضرت داوؑد علیھماالسلام کے دور میں دنیا کی سپر پاور تھے اب اس دور کو گزرے ہوئے ہزاروں سال بیت چکے ہیں لیکن ابھی تک اس دور کی یاد ان کے دلوں میں زندہ ہے اور آج بھی دنیا بھر کے یہودی اپنی اس کھوئی ہوئی شان و شوکت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے تگ و دو کررہے ہیں ۔زیر تبصرہ کتاب "البیرونی کا ہندوستان ،قدیم ہندوستان کی تہذیب وثقافت کی مس...
اہرام اہرم کی جمع ہے جس کا معنی ہے پرانی عمارت۔مخصوص شکل کے مخروطی مقابر کو اہرام کہا جاتا ہے اہرام مصر کا شمار انسان کی بنائی ہوئی عظیم ترین تعمیرات میں ہوتا ہے۔ یہ اہرام زمانہء قدیم کی مصری تہذیب کے سب سے پرشکوہ اور لافانی یادگار ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ان اہرام کی تعمیر کا مقصد فراعین مصر اور شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کا مدفن تھا۔ اہرام مصر میں غزہ کا عظیم اہرام دنیا کے سات عجائبات میں سے وہ واحد عجوبہ ہے جو ابھی تک اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔اہرام اور فرعونوں کے واقعات میں انسانی ہنر اور کمال کے ساتھ ساتھ عبرت اور بے بسی کےبھی بڑے گہرے نقوش ثبت ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’اہرام مصر اور فرعونوں کے عجائبات ‘‘ وارن اسمتھ(Warren Smith ) کی انگریزی کتاب The Secrt Forces Of The Pyramids کا اردو ترجمہ ہے ۔جناب راجپوت اقبال احمد نے اس خوبی سے اسے انگریزی سے اردو میں منتقل کیا ہے کہ یہ گمان ہی نہیں ہوتا...
دینی مدارس کے طلباء ،اساتذہ ،علمائے کرام ،مشائخ عظام اصحاب صفہ او رعلوم نبویﷺ کے وارث اور امین ہیں ۔ یہی مدارس دینِ اسلام کے وہ قلعے ہیں جہاں سے قال اللہ قال الرسول ﷺکی پاکیزہ صدائیں دن رات گونجتی ہیں ۔ روزِ اول سے دینِ اسلام کا تعلق تعلیم وتعلم اور درس وتدریس سے رہا ہے ۔نبی کریم ﷺ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ تعلیم سے متعلق تھی۔ اس وحی کے ساتھ ہی رسول اللہﷺ نےایک صحابی ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں دار ارقم کے نام سے ایک مخفی مدرسہ قائم کیا ۔صبح وشام کے اوقات میں صحابہ کرام وہاں مخفی انداز میں آتے اور قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے یہ اسلام کی سب سے پہلی درس گاہ تھی۔ہجرت کے بعدمدینہ منورہ میں جب اسلامی ریاست کاقیام عمل میں آیا تو وہاں سب سے پہلے آپﷺ نے مسجد تعمیر کی جو مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہے ۔اس کے ایک جانب آپ نے ایک چبوترا(صفہ) بھی تعمیر کرایا ۔ یہاں بی...
تاریخ اور جغرافیہ کی قدیم عربی کتب کےمطالعے سےاندازہ ہوتا ہے کہ خطہ برصغیر جہاں علم و فضل کے اعتبار سے انتہائی سرسبز و شاداب ہے وہیں اسے یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اس میں اصحاب رسول ﷺ تشریف لائے، تابعین اور تبع تابیعین نے اس سرزمین پر قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کیں۔ زیر نظر کتاب میں انھی مقدس ہستیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جو برصغیر میں تشریف لائیں۔ جس میں پچیس صحابہ کرام، بیالیس تابعین اور اٹھارہ تبع تابعین کا تذکرہ کیا گیا ہے اور ان کے وہ حالات بیان کیے گئے ہیں جو برصغیر سے متعلق مصنف کے علم و مطالعہ میں آئے۔ مولانا اسحاق بھٹی ادیب آدمی ہیں ان کے بیان کردہ تاریخی واقعات میں بھی ادب کی گہری چاشنی ہے۔ تمام حالات و واقعات حتی المقدور باحوالہ بیان کیے گئے ہیں۔ (ع۔م)
اسلامی صحافت سے مرادوہ صحافت ہےجس میں اسلامی رنگ غالب ہواور جو زندگی کےتمام سیاسی،اجتماعی ، اقتصادی ،دینی اور قانونی پہلوؤں کو اسلامی نقطۂ نظر سے پیش کرے۔اسلامی صحافت نے ممالک اسلامیہ کی ثقافت اور ان کے علمی وادبی دائرہ کار کو وسیع کرنے میں بھر پور حصہ لیا ہےاور ایسے مصنفین ومؤلفین اور سیاسی لوگوں کی جماعتیں پیدا کیں جنہوں نے علم وادب کی آبیاری میں حصہ لینے کے ساتھ ثقافت اسلامیہ کےچشموں کو وسعت دی اور فکر اسلامی کو صحیح راہ پرگامزن کیا۔ہندوستان میں اسلامی صحافت کی دو قسمیں ہیں پہلی وہ ہے جس کاآغاز مسلمانوں کےہاتھوں ہوا۔دوسری قسم وہ ہےجس میں مسلمانوں کےمسائل اور مشکلات پر بحث ہوتی ہے۔ زیر نظر کتاب ’’برصغیر میں اسلامی صحافت کی تاریخ اور ارتقاء‘‘ پروفیسر ڈاکٹر سلیم الرحمٰن خان ندوی صاحب کےعربی مقالہ’’الصحافة الإسلامية في الهند تاريخها وتطورها‘‘ کا اردوترجمہ ہےموصوف نےیہ مقالہ جامعۃ الامام بن سعود،الر...
اکابر علمائے اہل حدیث نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں نمایاں خدمات اور ہندوستان کی سرزمین سےبرطانوی سامران کو نکالنے کےلیےگراں قدر خدمات سرانجام دیں۔کئی علماء اہل حدیث مجاہدین ہندوستان کے قائد رہے اور جماعت المجاہدین کےاعلیٰ عہدوں پر بھی سرفراز رہے ۔ان کے مجاہدانہ کارناموں کے جرم میں گورنمنٹ برطانیہ نے انہیں جزائرانڈیمان (کالاپانی ) کی سزا سنائی۔مولانا ولایت علی صادق پوری، مولانا عنایت علی ، مولانا عبد اللہ ، مولانا عبد الکریم وغیرہم جماعت مجاہدین کے امیربنے۔انگریز دشمنی میں یہ خاندان خصوصی شہرت رکھتا تھا۔ سیّد احمد شہید کے شہادت کے بعد اسی خاندان کے معزز اراکین نے تحریک جہاد کی باگ دوڑ سنبھالی۔ اندرونِ ہند بھی اسی خاندان کے دیگر اراکین نے تحریک کی قیادت کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ مولانا یحیٰ علی ، مولانا احمد اللہ ، مولانا عبد الرحیم عظیم آبادی کو اسی پاداش میں کالا پانی کی سزا ہوئی۔ انگریزوں نے ان پر سازش کے مقدمات قائم کیے۔معروف مقدمہ انبالہ بھی مجاہدین کے ساتھ تعاون کرنے پر مولانا عبد الرحیم عظیم آبادی کے خلاف کیا گیا۔ جائیدادوں کی ضبطی ہوئی۔ حتیٰ کہ خان...
برصغیر میں ایک ہزار برس تک مختلف مسلمان حکمرانوں نے حکومت کی۔ لیکن ان میں سے کچھ ایسے تھے جن کی شخصیت وکردار میں کسی اعتبار سے انفرادیت تھی۔ اپنی ذاتی کاوشوں سے وہ ممتاز ومنفرد ثابت ہوئے یا پھر ان کے منفرد کردار نے برصغیر کی تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ یہ تمام حکمران باہمت‘ بیدار مغز‘ قوت عمل کے مالک اور تعصب سے پاک تھے۔ ان تمام حکمرانوں کو زبر دست مشکلات ومصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن انہوں نے مخالفتوں‘ ناکامیوں اور حوصلہ شکن حالات میں ہمت نہ ہاری اور مسلسل جدوجہد کی بدولت آخر کار مثالی کامیابی سے ہمکنار ہوئے ۔زیرِ تبصرہ کتاب بچوں کے لیے خاص طور پر افادہ کے لیے لکھی گئی ہے کیونکہ اس کتاب سے پہلے بچوں کے لیے ایسی کتاب موجود نہ تھی جس میں برصغیر کے ایک سے زیادہ حکمرانوں کے حالات زندگی اختصار کے ساتھ موجود ہوں۔ اپنی تاریخ سے آگاہی کے لیے طویل اور غیر ضروری تفصیلات پر مبنی واقعات پر مشتمل بہت سی کتب تھیں لیکن بچوں کے لیے انہیں پڑھنا آسان نہ تھا جس کی وجہ سے یہ کتاب اختصار کا مرقع ہے۔ اس کتاب میں پہلا تذکرہ محمود غزنوی کا ہے...
خود نوشت آپ بیتی یک نثری ادبی صنف ہے۔ جو کسی فرد ِ واحد کی زندگی کے اہم ادوار پر محیط ہوتی ہے اور اسی کے قلم کی رہینِ منت ہوتی ہے جسکے آئینے میں اس فرد کی داخلی اور خارجی زندگی کاعکس براہِ راست نظرآتا ہے ۔ خود نوشت کا محور مصنف کی شخصیت ہوتی ہےآپ بیتی جب ایک مستقل تصنیف کی شکل میں ہو اور وہ مصنف کی خود نوشت داستانِ حیات ہو تو اسے انگریزی میں autobiography اور اردو میں خود نوشت سوانح عمری یا خود نوشت سوانح حیات یا آپ بیتی کہتے ہیں۔ زیر نظر کتاب’’بیانِ زندگی‘‘ جدید ترقی یافتہ شارجہ کے بانی حکمران ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی حفظہ اللہ کی عربی زبان میں تحریرہ کر دہ سحر آفرین خودنوشت’’سرد الذات‘‘ کا اردو ترجمہ ہے یہ کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے ۔پہلے حصے کا نام سرد الذات ہے ۔بعد والے تین حصوں کا نام حدیث الذاکرة
شہاب الدین محمد شاہ جہاں (1592ء۔1666ء) سلطنت مغلیہ کاپانچواں شہنشاہ تھا جس نے 1628ء سے 1658ء تک حکومت کی۔ شاہ جہاں کا عہد مغلیہ سلطنت کے عروج کا دَور تھا اور اِس دور کو عہدِ زریں بھی کہا جاتا ہے۔ شاہ جہاں اپنے والد نورالدین جہانگیر کی نسبت مفکرانہ ذہنیت کا مالک نہ تھا بلکہ وہ عملی ذہن کا حامل تھا۔ 1658ء میں شاہ جہاں کو اُس کے بیٹے اورنگزیب عالمگیر نے معزول کر دیا۔ شاہ جہاں کی تعمیرات سے دِلچسپی اور اُس کے عہد میں تعمیر ہونے والے تعمیری شاہکار آج بھی قائم ہیں۔ اُسے مغلیہ سلطنت کا عظیم ترین معمار شہنشاہ یا انجنئیر شہنشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ شاہ جہاں کی وجہ شہرت تاج محل اور ممتاز محل سے اُس کی محبت کی داستانیں ہیں۔مغلیہ سلطنت کے متعلق بیسیوں کتب لکھی گئی ہیں ڈاکٹر سکسینہ کی زیر نظر تصنیف ’’تاریخ شاہجہاں ‘‘ہندوستان میں تیموریہ تاریخ کے حوالے سے بہترین کتاب ہے ۔ (م۔ا)
ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ 712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857 کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا ۔ برطانوی سامراج جس کی ابتداء 1757 ء کو ہوئی تھی کا خاتمہ 1947 ء کو ہوا۔ محمد بن قاسم نے دمشق میں موجود مسلمان خلیفہ الولید اور بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کی آشیر باد سے، 712 ء میں ہندوستان پر حکمرانی کا آغاز کیا ۔ 1590ء تک مسلمان حکمران شہنشاہ اکبر تقریباً پورے ہندوستان پر قابض ہو چکا تھا۔ اورنگ زیب کے دور (1657-1707) میں اس سلطنت میں کچھ اضافہ ہوا۔تاریخ ہندوستان کے متعلق بے شمار کتب موجود ہیں ان میں سے تاریخ فرشتہ بڑی اہم کتاب ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’ تاریخ فرشتہ ‘‘محمد قاسم فرشتہ (متوفی 1620ء) کی تصنیف ہے ہندوستان کی عمومی کتب ہائے تواریخ میں سے ایک مشہور تاریخی کتاب ہےیہ ہندوستان کی...
دہلی بھارت کا قومی دار الحکومتی علاقہ ہےجسے مقامی طور پر دِلّی بھی کہا جاتا ہے، یہ تین اطراف سے ہریانہ سے گھرا ہوا ہے جبکہ اس کے مشرق میں اتر پردیش واقع ہے۔ دہلی ممبئی کے بعد بھارت کا دوسرا اور دنیا کا تیسرا سب سے بڑا شہری علاقہ ہے۔ اور ممبئی کے بعد بھارت کا دوسرا امیر ترین شہر ہے۔دریائے جمنا کے کنارے یہ شہر چھٹی صدی قبل مسیح سے آباد ہے۔ تاریخ میں یہ کئی سلطنتوں اور مملکتوں کا دار الحکومت رہا ہے جو کئی مرتبہ فتح ہوا، تباہ کیا گیا اور پھر بسایا گیا۔ دہلی بھارت کا اہم ثقافتی، سیاسی ،تمدنی و تجارتی مرکز بھی ہے۔شہر میں عہد قدیم اور قرون وسطیٰ کی بے شمار یادگاریں اور آثار قدیمہ موجود ہیں۔ سلطنت دہلی کے زمانے کا قطب مینار اور مسجد قوت اسلام ہندوستان میں اسلامی طرز تعمیر کی شان و شوکت کے نمایاں مظاہر ہیں۔ عہد مغلیہ میں جلال الدین اکبر نے دار الحکومت آگرہ سے دہلی منتقل کیا، 1920ء کی دہائی میں قدیم شہر کے جنوب میں ایک نیا شہر’نئی دہلی‘بسایا گیا۔1947ء میں آزادئ ہند کے بعد نئی دہلی کو بھارت کا دار الحکومت قرار دیا گیا۔ زیر...
زیر تبصرہ کتاب " تاریخ ہند پر نئی روشنی " دراصل ابن فضل اللہ عمری دمشقی (المتوفی 764ھ) کی ایک ضخیم اور کئی جلدوں پر مشتمل قلمی عربی کتاب "مسالک الابصار فی ممالک الامصار" کے ہندوستان سے متعلق ایک باب کا اردو ترجمہ ہے اور ترجمہ کرنے کی سعادت محترم خورشید احمد فارق نے حاصل کی ہے۔مؤلف موصوف نے اپنی کتاب میں عام معلومات اور جنرل نالج کی چیزیں جمع کی ہیں۔اس کتاب کا ایک قلیل حصہ خود مؤلف کی ذاتی آراء ،مشاہدات یا ہمعصر اشخاص مثلا سیاحوں،سفیروں اور معلموں کے بیانات پر مبنی ہے۔اور ہندوستان پر جو طویل باب ہے وہ بیشتر زبانی معلومات پر مشتمل ہے۔مؤلف موصوف نے اس باب میں اپنے ہمعصر سلطان محمد بن تغلق (المتوفی 782ھ)کے حالات اور سیرت پر سیاحوں،معلموں اور سفیروں کی زبانی روشنی ڈالی ہے۔ممکن ہے ان لوگوں کے بعض بیانات مثلا وہ جن کا تعلق تغلق شاہ کی فیاضی اور فوج کے اعداد وشمار اور تنخواہوں سے ہے،مبالغہ یا سہو سے آلودہ ہوں،تاہم بحیثیت یہ باب نہایت اہم ہے کیونکہ اس میں ایسی نادر تاریخی،اجتماعی اور اقتصادی معلومات ہیں جن سے خود ہ...
مسلمان اور غلامی دو متضاد چیزیں ہیں جو ایک ساتھ اکٹھی نہیں ہو سکتی ہیں۔مسلمان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ غلامی کی فضا میں اپنے دین کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔اسلام غلبہ اور حکمرانی کے لئے آیا ہے ،دوسروں کی چاکری اور باطل نظاموں کی غلامی کے لئے نہیں آیا ہے۔اسلام نے مسلمانوں کا یہ مزاج بنایا ہے کہ وہ طاغوت کی حکومت ،خواہ کسی بھی شکل میں ہو اس کی مخالفت کریں اور خدا کی حاکمیت کو سیاسی طور پر عملا قائم کرنے اور زندگی کے ہر شعبے میں اسے جاری وساری کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔برصغیر کے مسلمانوں کے سامنے یہ مسئلہ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں اس وقت بہت نمایاں ہو کر ابھرا،جب سلطنت مغلیہ کے خاتمہ کے بعد برطانوی استعمار کے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔چنانچہ سید احمد شہید نے جہاد کا اعلان کیا اور تحریک مجاہدین نے آخری دم تک دشمنان اسلام کا مقابلہ کیا۔1857ء کی جنگ آزادی مسلمانوں ہی کے خون سے سینچی گئی۔تمام تر خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود مسلمانوں نے غیر اللہ کی غلامی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں "سمجھوتہ بندی" کی روش کو خاصی تقویت م...
امت مسلمہ کے زوال کے سلسلے میں کوئی حتمی یا یقینی بات متعین طور سے نہیں کہی جاسکتی کہ اس کا زوال کب شروع ہوا۔ البتہ محققین کی رائے کے مطابق شروع دور سے ہی عروج وزوال کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بارہویں صدی کے اواخر میں جب مسلمانوں کا سیاسی وعسکری زوال سامنے آیا، اور پھر تحقیق وتصنیف، اجتہاد وحرکت اور نئی دریافتوں اور ایجادوں کی راہ چھوڑ کر امت مسلمہ جمود وتعطل کا شکار ہوتی چلی گئی، اور اس کے نتیجے میں مسلسل پسماندگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس امت کا تنزل ہر میدان میں ہوا، سائنس، ٹکنالوجی، صنعت کاری، تہذیب وثقافت، علوم وفنون اور ادب وآرٹ وغیرہ وغیرہ۔ یہاں تک کہ ایک ترقی یافتہ قوم کی حالت یہ ہوگئی کہ وہ ثریا سے تحت الثری تک پہنچ گئی اور ہر میدان میں ذلیل وخوار ہوکر رہ گئی۔قوموں کا عروج وزوال قوم کے افراد پر منحصر ہوتا ہے، جب کسی قوم کے افراد بیدار ہوتے ہیں تو وہ قوم ترقی کرتی ہے، اور جب اس کے افراد غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں تو اس قوم کو بھی پسماندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " جنوبی ایشیا میں مسلم بیداری کے سو سال " محترم...
ہندوستان کی تحریک آزادی کوعلمائے کرام نے جہاد کا نام دیا تھا، 1857ء میں علامہ فضل حق خیر آبادی، مولانا لیاقت اللہ الہٰ آبادی، مولانا احمد اللہ مدراسی وغیرہ نے فتویٰ جہاد دیا اور اس کی خوب تشہیرپورے ملک میں کی جس سے پورے ملک میں آزادی کی لہر دوڑ گئی۔ علماے کرام کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں نے بھی اس جنگ آزادی میں دل و جان سے حصہ لیا اور انتہائی درجہ کی تکلیفیں برداشت کیں اور ہزاروں علماے کرام کو انگریزوں نے جوش انتقام میں پھانسی پر لٹکا دیا اور علما نے بڑے عزم و حوصلہ سے مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندوں کو قبول کر لیا تب جاکر 14؍ اگست 1947ء کو ہندوستان کو آزادی ملی۔ اور آج ہم ہندوستان کی کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ زیر نظر کتاب’’جنگ آزادی کےمسلم مجاہدین ‘‘ضامن علی خاں کی مرتب شدہ ہے فاضلم مرتب نے اس کتاب میں1857ء کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والی معروف شخصیات کے علاوہ سیکڑوں غیر معروف مسلم مجاہدین کا تذکرہ کیا ہے۔(م۔ا)
صلیبی جنگوں اور ان میں حصہ لینے والے انتہاء پسندوں کی تاریخ تقریبا ایک ہزار سال پرانی ہے۔سب سے پہلی صلیبی جنگ، یعنی عیسائیوں کی مسلمانوں کے خلاف جنگ 1096ء میں ہوئی، جب عیسائیوں نے مسلمانوں سے بیت المقدس چھیننے کی کوشش کی۔1096ءسے 1291ء تک ارض فلسطین بالخصوص بیت المقدس پر عیسائی قبضہ بحال کرنے کے لیے یورپ کے عیسائیوں نے کئی جنگیں لڑیں جنہیں تاریخ میں “صلیبی جنگوں“ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ جنگیں فلسطین اور شام کی حدود میں صلیب کے نام پر لڑی گئیں۔ صلیبی جنگوں کا یہ سلسلہ طویل عرصہ تک جاری رہا اور اس دوران نو بڑی جنگیں لڑی گئیں جس میں لاکھوں انسان قتل ہوئے۔ صلیبی جنگوں کے اصل اسباب مذہبی تھے مگر اسے بعض سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ یہ مذہبی اسباب کچھ معاشرتی پس منظر بھی رکھتے ہیں۔ پیٹر راہب جس نے اس جنگ کے لیے ابھارا، اس کے تعلقات کچھ مالدار یہودیوں سے بھی تھے۔ پیٹر راہب کے علاوہ بعض بادشاہوں کا خیال تھا کہ اسلامی علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد ان کے معاشی حالات سدھر سکتے ہیں۔ غرض ان جنگوں کا کوئی ایک سبب نہیں مگر مذہبی پس منظر سب سے ا...
شیخ محمد اکرام (1908۔1971ء)چک جھمرہ (ضلع لائل پور ) میں پیدا ہوئے۔ گورنمٹ کالج لاہور اور آکسفورڈ میں تعلیم پائی ۔ 1933ء میں انڈین سول سروس میں شامل ہوئے اور سوات ، شولا پور، بڑوچ اور پونا میں اعلٰی انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ آپ پونا کے پہلے ہندوستانی کلکٹر اور دسٹرکٹ مجسٹریٹ تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اطلاعات اور نشریات کے ڈپٹی سیکرٹری مقرر ہوئے۔ پھر وزارت اطلاعات و نشریات کے جائنٹ سیکرٹری اور بعد میں کچھ مدت کے لیے سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1955ء سے 1957ء تک مشرقی پاکستان میں متعین رہے ، پہلے کمشنر ڈھاکہ اور پھر ممبر بورڈ آف ریونیو کی حیثیت سے ۔1958ء تک محکمہ اوقاف کے ناظم اعلیٰ پاکستان مقرر ہوئے۔دفتری کاموں کے ساتھ ساتھ ادبی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ ہندی مسلمانوں کی ثقافتی اور مذہبی تاریخ لکھی جو تین جلدوں میں شائع ہوئی۔ آب کوثر ، رود کوثر ، موج کوثر ، غالب اور شبلی کے سوانح بھی مرتب کیے۔ برصغیر پاک و ہند کی فارسی شاعری کا ایک مجموعہ ارمغان پاک مرتب کیا۔ جو1950 ء میں شائع ہوا۔ علمی خدمات کی بنا پر حکومت ایران نے آپ کو نشان سپاس اور حکومت پاک...
تاریخ اس علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ بادشاہوں ، فاتحوں اورمشاہیر کے احوال، گزرے ہوئے زمانہ کے بڑے اور عظیم الشان واقعات و حوادث، زمانہٴ گزشتہ کی معاشرت ، تمدن اور اخلاق وغیرہ سے واقفیت حاصل کی جاسکے۔ ۔تاریخ سے گزشتہ اقوام کے عروج و زوال ، تعمیر و تخریب کے احوال معلوم ہوتے ہیں، جس سے آئندہ نسلوں کے لیے عبرت کا سامان میسر آتا ہے، حوصلہ بلند ہوتا ہے، دانائی و بصیرت حاصل ہوتی ہے اور دل و دماغ میں تازگی و نشو نما کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ زیر نظر کتاب’’سرمایۂ تاریخ‘‘ پرو فیسر سیعد اختر کی تصنیف ہے۔ مصنف نے کتاب ہذا میں برصغیر پاک وہند کے علمی سرمائے سے استفادہ کر کے ممتاز مؤرخوں اور سوانح نگاروں کے حالاتِ زندگی اور علمی خدمات کا ناقدانہ جائزہ پیش کیا ہے۔(م۔ا)
لفظ \\\"ہند\\\" عرب کے لوگ فارس اور عرب کے مشرقی علاقے میں آباد قوموں کے لیے استعمال کرتے تھے اور اسی سے ہندوستان کی اصطلاح برصغیر کے بیشتر علاقے کے لیے استعمال ہونا شروع ہو گئی۔ مختلف سلطنتوں اور بادشاہتوں کے تحت بادشاہتِ ہند کی سرحدیں بدلتی رہیں۔ آخر برصغیر پاک و ہند کا سارا علاقہ برطانوی تسلط میں آ کر \\\"برطانوی انڈیا\\\" یا \\\"ہندوستان\\\" کہلانے لگا۔ یہ صورتِ حال 1947ء تک برقرار رہی۔ اس میں موجودہ بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان شامل تھے۔ 1947ء کے بعد یہاں دو ملک بن گئے جنہیں بھارت اور پاکستان کہا گیا۔ بعد ازاں پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصے علاحدہ ہو گئے۔ مشرقی حصہ بنگلہ دیش کہلایا۔ موجودہ زمانے میں ہندوستان سے کوئی واضح جغرافیائی خطہ مراد نہیں مگر عام زبان میں اس سے بھارت مراد لی جاتی ہے جو تکنیکی لحاظ سے غلط ہے۔ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ 712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857 کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار...
حدیث نبوی ہے کہ عنقریب تم پرہرطرف سے قومیں ٹوٹ پڑیں گی جیسے کھاناکھانے والے دسترخواں پرٹوٹ پڑتے ہیں۔اس وقت مسلمانوں کی تعدادکم نہیں ہوگی لیکن ان کاعالم یہ ہوگاکہ سمندرکی جھاگ کی طرح ہوں گے ۔مسلمانوں کارعب دشمنوں کے دل سے نکل جائے گا۔اوران کےدلوںمیں وہن یعنی زندگی سے محبت اورموت سے نفرت پیداہوجائے گی ۔سقوط کابل وبغدادرسول کریم ﷺ کی اسی پیش گوئی کی منہ بولتی تصویرہے ۔ڈیڑھ ارب مسلم آبادی کی موجودگی میں دومسلم ریاستوں کوکفرکی اتحادی افواج نے جس طرح تہس نہس کیاہے ،یہ محض مسلمانوں کی ایمانی کمزوری کانتیجہ ہے ۔زیرنظرکتاب افغان اورعراق جنگ کے دوران شائع ہونے والے ان مضامین کامجموعہ ہے جن میں کفرکی یلغارکے نتیجہ میں امت مسلمہ کے عروج وزوال کی داستان کتاب وسنت کاتاریخ اورحالات حاضرہ سے دلائل کے ساتھ بیان کی گئی ہے اورساتھ یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کی مددکب کرتاہے اورکب مسلمان اللہ کی مددسے محروم ہوتے ہیں۔