#3149

مصنف : محمد عبد المعبود

مشاہدات : 11584

تاریخ المکۃ المکرمہ

  • صفحات: 990
  • یونیکوڈ کنورژن کا خرچہ: 34650 (PKR)
(جمعہ 25 دسمبر 2015ء) ناشر : مکتبہ رحمانیہ لاہور

بلدحرام مکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کو سب شہروں سےزیادہ محبوب ہے ۔ مسلمانوں کا قبلہ اوران کی دلی محبت کا مرکز ہے حج کا مرکز اورباہمی ملاقات وتعلقات کی آماجگاہ ہے ۔ روزِ اول سے اللہ تعالیٰ نے اس کی تعظیم کے پیش نظر اسے حرم قرار دے دیا تھا۔ اس میں ’’کعبہ‘‘ ہے جو روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنایا جانے والا سب سےپہلا گھر ہے ۔ اس قدیم گھر کی وجہ سےاس علاقے کو حرم کا درجہ ملا ہے۔ اوراس کی ہر چیز کو امن وامان حاصل ہے ۔ حتیٰ کہ یہاں کے درختوں اور دوسری خورد ونباتات کوبھی کاٹا نہیں جاسکتا۔ یہاں کے پرندوں اور جانوروں کوڈرا کر بھگایا نہیں جاسکتا۔اس جگہ کا ثواب دوسرےمقامات سے کئی گناہ افضل ہے۔ یہاں کی ایک نماز ایک لاکھ نماز کا درجہ رکھتی ہے ۔ مکہ مکرمہ کو عظمت ، حرمت او رامان سب کچھ کعبہ کی برکت سےملا ہے۔مکہ مکرمہ تاریخی خطہ حجاز میں سعودی عرب کے صوبہ مکہ کا دارالحکومت اور مذہب اسلام کا مقدس ترین شہر ہے۔ مکہ جدہ سے 73 کلومیٹر دور وادی فاران میں سطح سمندر سے 277 میٹر بلندی پر واقع ہے ۔ یہ بحیرہ احمر سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔یہ شہر اسلام کا مقدس ترین شہر ہے کیونکہ روئے زمین پر مقدس ترین مقام بیت اللہ یہیں موجود ہے اور تمام باحیثیت مسلمانوں پر زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ یہاں کا حج کرنا فرض ہے ۔مسجد حرام کے اندر قائم خانۂ کعبہ سیدنا ابراہیم ﷤اور سیدنا اسماعیل ﷤ نے تعمیر کیا ۔کعبۃ الله کی تعمیری تاریخ عہد ابراہیم اور اسماعیل ﷩سے تعلق رکھتی ہے اور اسی شہر میں نبی آخر الزماں محمد ﷺپیدا ہوئے اور اسی شہر میں نبی ﷺپر وحی کی ابتدا ہوئی۔ یہی وہ شہر ہے جس سے اسلام کا نور پھیلا اور یہاں پرہی مسجد حرام واقع ہے جوکہ لوگوں کی عبادت کے لیے بنائی گئی جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :”اللہ تعالٰی کا پہلا گھر جولوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہ وہی ہے جومکہ مکرمہ میں ہے جوتمام دنیا کے لئے برکت و ہدایت والا ہے“ ( آل عمران:96 )570ء یا 571ء میں یمن کا فرمانروا ابرہہ ساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی (بعض روایات کے مطابق نو ہاتھی) لے کر کعبہ کو ڈھانے کے لیے مکہ پر حملہ آور ہوا۔ اہل مکہ اس خیال سے کہ وہ اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبے کو بچانے کی طاقت نہیں رکھتے ، اپنے سردار عبدالمطلب کی قیادت میں پہاڑوں پر چلے گئے ۔ اس پر اللہ تعالٰی کے حکم سے ہزاروں ابابیل چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لیے ہوئے نمودار ہوئے اور انہوں نے ابرہہ کے لشکر پر ان سنگریزوں کی بارش کر دی چنانچہ یہ سارا لشکر منیٰ کے قریب وادی محسر میں بالکل کھائے ہوئے بھوسے کی طرح ہو کر رہ گیا۔ تو اس طرح یہ مکمل لشکر اللہ تعالیٰ کے حکم سے تباہ و برباد ہوگیا اللہ تعالیٰ نے اس حادثے کا ذکر قرآن مجید میں بھی کیا ہے۔یہ وہی سال تھا جب آنحضرت ﷺکی پیدائش ہوئی۔ نبی کریم ﷺنے زندگی کا بیشتر حصہ یہیں گزارا۔ آپ پر وحی بھی اسی شہر میں نازل ہوئی اور تبلیغ اسلام کے نتیجے میں کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر مسلمان یہاں سے مدینہ ہجرت کر گئے۔بالآخر 10 رمضان المبارک 8ھ بمطابق 630ء میں مسلمان حضور ﷺ کی قیادت میں اس شہر میں دوبارہ داخل ہوئے ۔ مدینہ ہجرت جانے کے بعد رسول اللّہ ﷺکی قیادت میں مسلمانوں کی دوبارہ اس شہر مکّہ میں آمد کو فتح مکہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر حضور ﷺنے تمام اہلیان شہر کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔خلافتِ اسلامیہ کے عروج پر پہنچنے کے بعد مکہ مکرمہ مسلم دنیا کے معروف علمائے کرام اور دانشوروں کا مسکن بن گیا جو کعبۃ الله سے زیادہ سے زیادہ قریب رہنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں سفر حج کی مشکلات اور اخراجات کے باعث حجاج کرام کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی آج کل ہے ۔ 18 ویں اور 19 ویں صدی کے نقشہ جات اور تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا شہر تھا جس میں مسجد حرام کے گرد ایک شہر قائم تھا۔مکہ کبھی بھی ملت اسلامیہ کا دارالخلافہ نہیں رہا۔ اسلام کا پہلا دارالخلافہ مدینہ تھا جو مکہ سے 250 میل دوری پر واقع ہے۔ خلافتِ راشدہ کے زمانے میں بھی مدینہ ہی دارالخلافہ رہا اور پھر سیدنا علی ﷜ کے زمانے میں پہلے کوفہ اور اس کے خاتمے کے بعد دمشق اور بعد ازاں بغداد منتقل ہوگیا۔مکہ مکرمہ صدیوں تک ہاشمی شرفاء کی گورنری میں رہا جو اس حکمران کے تابع ہوتے تھے جو خود کو خادم الحرمین الشریفین کہلاتا تھا۔1926ء میں سعودیوں نے شریف مکہ کی حکومت ختم کرکے مکہ کو سعودی عرب میں شامل کرلیا۔جدید زمانے میں حاجیوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث شہر تیزی سے وسعت اختیار کرتا جارہا ہے اور شہر کی اکثر قدیم عمارات ختم ہوچکی ہیں جن کی جگہ بلند و بالا عمارات، شاپنگ مالز، شاہراہیں اور سرنگیں تعمیر کی گئی ہیں۔مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا اسلام کے پانچ بنیادی اراکین میں سے ایک ہے ۔ حالیہ سالوں میں 30 لاکھ سے زائدمسلمان ہر سال حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لاتے ہیں۔ علاوہ ازیں لاکھوں مسلمان عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے بھی سال بھر مکہ آتے ہیں۔شہر مکہ میں بنیادی حیثیت بیت اللہ کو حاصل ہے جو مسجد حرام میں واقع ہے ۔ حج و عمرہ کرنے والے زائرین اس کے گرد طواف کرتے ہیں، حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں اور زمزم کے کنویں سے پانی پیتے ہیں۔ علاوہ ازیں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان سعی اور منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل بھی کیا جاتا ہے ۔ حج کے دوران میدان عرفات میں بھی قیام کیا جاتا ہے ۔مسلمانوں کے لیے مکہ بے پناہ اہمیت کا حامل ہے اور دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ اسی کی جانب رخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔غیر مسلموں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں اور شہر کی جانب آنے والی شاہراہوں پر انتباہی بورڈ نصب ہیں۔ جن مقامات سے غیر مسلموں کو آگے جانے کی اجازت نہیں وہ حدود حرم کہلاتی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’ تاریخ المکۃ المکرمہ‘‘ جناب محمد عبد المعبود کی تصنیف ہے اردو زبان میں اپنے موضوع پر سب زیادہ جامع اور مستند کتاب ہے۔کیونکہ یہ نامور متقدمین مؤرخین کی کتب سے مکمل استفادہ کرتے ہوئے ترتیب دی گئی ہے ۔یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اول میں مکہ معظمہ کی تہذیبی ،تمدنی،ارتقائی، اقتصادی ، معاشرتی اور سیاسی تاریخ سے متعلق تفصیلی بحث موجود ہے ۔ اور دوسرے حصہ میں حرم کعبہ اور اسکے ملحقات کی چار ہزار سالہ نادر تاریخی دستاویزات رقم کی گئی اور تیسرے حصہ میں مکہ مکرمہ رائج نظام تعلیم ،مدارس ، زراعت اور صعنت پر سیر حاصل ابحاث ہیں۔ ہر بحث مستند حوالہ جات سے مزین کی گئی ہے ۔ الغرض یہ کتاب مکہ مکرمہ اور بیت اللہ شریف کی چار ہزارسالہ مکمل مفصل اور مدلل تاریخ ہے ۔اپنی افادیت کے اعتبار سے ہر مسلمان کی مطمح نظر اورہر لائبریری کی شانہ ہے ۔اللہ تعالیٰ کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔(آمین) (م۔ا)

عناوین

صفحہ نمبر

بسم اللہ

1

نام کتاب وغیرہ

2

انتساب

3

آئینہ کتاب

4

پیش گفتار

9

نقشہ

14

مکتوب شریف

16

باب اول

 

مکہ مشرفہ

17

وجہ تسمیہ

19

اسماء مقدسہ

20

ارض مکہ کی پیدائش

27

محل وقوع

29

حدود اربعہ

32

موسم

36

مردم شماری

37

مکہ کےمحلے

39

سڑکیں

42

مکہ سے مدنیہ کا راستہ

44

مکہ کو آنے والی چندشاھراہیں

48

مکہ سےبعض مشہور شہروں کا فاصلہ

49

فضائل مکہ

52س

فضل مکہ(نظم)

65

شہر خوباں کی آبادی

66

پر شکوہ تعارفی جھلک

69

سیدہ ہاجرہ

72

سیدنا اسماعیلؑ

74

خاندان ابراھیمی کا مکہ میں ورود

76

دعاے ابراھیمی

78

مہمان ذی شان

81

جرہم کی آمد

85

ذبیح اللہ

88

سیدنا اسماعیل کا عقد

95

عقد ثانی

97

سیدنا اسماعیل ؑ کا وصال

101

باب دوم

 

مکہ معظمہ یورپین مؤرخین کی نظر میں

105

مغربی مؤرخین کا مبلغ علم

105

یورپ علوم و فنون میں عربوں کا شاگردہے

108

عربوں سے تعصب موروثی ہے

111

مکہ کی قدامت پر تورات، انجیل اور زبور شہادت

114

یونانی اور مسیحی تاریخ میں مکہ اور بیت اللہ کا تذکرہ

124

دیوتاؤں کا ذکر

128

حج بیت اللہ کا ذکر

129

جزیرہ العرب کی تقسیم اور اولاد اسما عیل کے مسا کن

133

عالمی تجارتی منڈی میں مکہ کا مقام

141

سوم باب

 

عہد ابراہیمی سے ظہوراسلام تک اور شہ کونین کے اجداد کا نسب نامہ

147

عہد ابراہیمی میں مکہ معظمہ

149

عہداسماعیلی میں مکہ

150

جرہم کے زمانہ میں مکہ

152

خزاعہ کے زمانہ میں مکہ

156

شاہ تبع کی مکہ میں آمد

158

قریش کا درخشندہ دور اور شہ کو نین کا نسب نامہ

160

قریش کی اقسام

163

قریش کے قبائل اورمساکن

164

قصی بن کلاب

166

قصی کے تابندہ کارنامے

170

علامہ قطب الدین کا ہدیہ سپاس

174

قصی کا زمانہ

176

معاشی استحکام

176

ہاشم

177

عبدالمطلب

179

واقعہ فیل

182

باب چہارم

 

ظہور قدسی سے خالدبن عبدالعزیز تک

187

ظہور قدسی

189

سفر مد ینہ

194

ابوا اور مستورہ

195

جنگ فجاز

198

حلف الفضول

199

شغل تجارت

200

غار حرا میں عبادت

201

تبلیغ کی ابتداء

202

وصال سیدہ خدیجہؓ

203

معراج النبیﷺ

205

ہجرت مدینہ

209

ہجرت کے لیے روانگی

211

صلح حدیبیہ سے فتح مکہ   تک

216

حضرت عثمان کی سفارت

219

صلح حدیبیہ کے سیاسی اثرات

222

عمرۃ القضاء

224

فتح مکہ

227

فتح مکہ کے سیاسی اثرات

230

حجۃ الوداع

231

شق القمر

234

خلافت فاروقی

240

خلافت اموی

241

خلافت عباسی

242

خلافت عثمانیہ

243

خاندان سعود

248

محمد بن عبدا لوہاب

249

عہد ساز رفاقت

251

علماء دیو بند کا ابتلاء

255

مکہ کی جیل

258

سلطان حجاز کا اعزاز

265

باب پنجم

 

سیادت و قیادت اور مقامات مقدسہ

269

سیاسی نظام

271

مذہبی عہدے

275

عدالتی،سیاسی اور جنگی عہدے

275

کرنسی

277

مالیاتی نظام

277

معلم

279

امراے مکہ

280

امراے حج اور حوادثات

292

ایام حج میں آتشزدگی

303

محلہ جیاد میں آتشزدگی

304

حرم کعبہ میں خوفناک جنگ

305

مکہ یونیورسٹی کے سکالر کا خط

310

سزاے موت

312

مسا جد مکہ

314

چند متبرک مکانات

328

سیدہ خدیجہؓ کا مکان

329

سیدنا علی ؓ کا مکان

331

سیدنا عباسؓ کا مکان

332

سیدنا ابی سفیانؓ کا مکان

332

دارارقم

333

سیدہ ام ہانیؓ کا مکان

335

جبال مکہ

336

باب ششم

 

رفاہی امور

339

مکہ کے کنوئیں

341

نہر زبیدہ

343

مکہ میں سیلابوں کا تذکرہ

355

سیلاب کی روک تھام کے لیے بند کی تعمیر

371

مکہ کے   ہسپتا   ل

372

پرنٹنگ پریس

375

ذرائع ابلاغ

378

کتب خانے

382

فونٹن پین کا استعمال

383

ذرائع مواصلات

384

ڈاک خانہ

384

ٹیلیگرام

388

ٹیلیفون

388

مکہ میں موٹرگاڑیاں کی آمد

391

باب ہفتم

 

تہذیب و تمدن

393

زبان

395

مذہب

397

تعلیم

398

لباس

398

خوراک

401

روٹی پکانے کا طریقہ

402

مشروبات

404

حلاوات

407

مچھلی کی درآمد

407

مرغی خانے

409

شادی کی رسومات

409

تجہز وتکفین

410

تجارت

412

سامان تجارت

414

تجارتی میلے

417

مکانات

419

تعمیراتی نظام

424

قہوہ خانے

426

ہوٹل یا فندق

428

رباط

429

صنعت و حرفت

431

زرگری

431

صراحی کی صنعت

 

پلاسٹک کی صنعت

433

برف سازی

434

آٹا مشین

436

مکہ کے با غات

437

بجلی کا استعمال

442

ٹیلی ویثرن کا استعمال

442

لاؤڈ سپیکر

442

گھڑیوں کی آمد

443

سٹوڈیو

445

عمرانی ترقی

447

ماخذ

450

اس مصنف کی دیگر تصانیف

اس ناشر کی دیگر مطبوعات

ایڈ وانس سرچ

اعدادو شمار

  • آج کے قارئین 40820
  • اس ہفتے کے قارئین 207855
  • اس ماہ کے قارئین 694047
  • کل قارئین97759351

موضوعاتی فہرست