ایک صحت مند دماغ اور جسم زندگی میں پیش آمدہ امور کو صحیح طور پر نبٹا سکتا ہے او رمایوسی و نفسیاتی بیماریاں انسان کو حالات سے لڑنے کے قابل نہیں چھوڑتیں۔ ایک مسلمان کا ایمان و بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے کہ وہ تمام اسباب کا مالک ہے او راس کی بے پایاں رحمت جہاں کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس نے اپنے بندوں کی مشکلات اور طبائع کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی پیچیدگیوں کا شریعت میں حل رکھا ہے او روہ احکام صادر فرمائے ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہوکر او راپنا کر انسان بامقصد اور صاف ستھری زندگی گزار سکتا ہے۔زیرنظر کتابچہ جوکہ عربی کتاب ’’لا تحزن‘‘ کا ترجمہ ہے۔ مؤلف نے اس میں وہ تمام شرعی ہدایات کہ جن کومدنظر رکھتے ہو ے مایوسی اور پریشان کن کیفیت سےدور رہا جاسکتا ہے، ذکر کردیئے ہیں اور یہ ہدایات قرآن و حدیث کی نصوص سے مزین ہیں۔روحانی و قلبی قوت کےلئے کتاب لائق مطالعہ ہے۔(ک۔ط)
دنیا دارالامتحان ہے اس میں انسانوں کو آزمایا جاتا ہے ۔آزمائش سے کسی مومن کوبھی مفر نہیں۔ دنیا میں غم ومسرت اور رنج وراحت جوڑا جوڑا ہیں ان دونوں موقعوں پر انسان کو ضبط نفس اور اپنے آپ پر قابو پانے کی ضرورت ہے یعنی نفس پر اتنا قابو ہوکہ مسرت وخوشی کے نشہ میں اس میں فخر وغرور پیدا نہ ہو اور غم وتکلیف میں وہ اداس اور بدل نہ ہو۔ انسان کو اس جہاں میں طرح طرح کی مشکلات اور پریشانیوں کاسامنا کرنا پڑتاہے۔ قسم قسم کےہموم وغموم اس پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔اور یہ تمام مصائب وآلام بیماری اور تکالیف سب کچھ منجانب اللہ ہے اس پر ایمان ویقین رکھنا ایک مومن کے عقیدے کا حصہ ہے کیوں کہ اچھی اور بری تقدیر کا مالک ومختار صر ف اللہ کی ذات ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سےجنہیں چاہتا ہے انہیں آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ وہ اطاعت پرمضبوط ہوکر نیکی کے کاموں میں جلدی کریں اور جوآزمائش انہیں پہنچی ہے ۔اس پر وہ صبر کریں تاکہ انہیں بغیر حساب اجروثواب دیا جائے...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اوردستور زندگی ہے۔اس کی اپنی تہذیب، اپنی ثقافت، اپنےرہنے سہنے کے طور طریقے اور اپنے تہوار ہیں ،جو دیگر مذاہب سے یکسر مختلف ہیں۔تہوار یاجشن کسی بھی قوم کی پہچان ہوتے ہیں،اور ان کے مخصوص افعال کسی قوم کو دوسری اقوام سے جدا کرتے ہیں۔جو چیز کسی قوم کی خاص علامت یا پہچان ہو ،اسلامی اصطلاح میں اسے شعیرہ کہا جاتا ہے،جس کی جمع شعائر ہے۔اسلام میں شعائر مقرر کرنے کا حق صرف اللہ تعالی کو ہے۔اسی لئے شعائر کو اللہ تعالی نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔لہذا مسلمانوں کے لئے صرف وہی تہوار منانا جائز ہے جو اسلام نے مقرر کر دئیے ہیں،ان کے علاوہ دیگر اقوام کے تہوار میں حصہ لینا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ غیر مسلم تہوار، اسلامی تہذیب کے سینے پر خنجر ‘‘ محترم تفضیل احمد ضیغم صاحب کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے کافر اقوام کے بے شمار تہواروں کو جمع کر کے مسلمانوں کو ان بچنے اور ان میں شرکت نہ کرنے کی ترغیب دی ہے،کیونکہ غیر اسلامی تہوار منانا مسلمانوں کے لئ...
اپنی حقیقت ،اپنی صورت، ہیئت اور وجود کو چھوڑ کر دوسری قوم کی حقیقت ، اس کی صورت اختیار کرنے اور اس کے وجود میں مدغم ہو جانے کا نام تشبہ ہے۔ شریعتِ مطہرہ مسلم وغیر مسلم کے درمیان ایک خاص قسم کا امتیاز چاہتی ہے کہ مسلم اپنی وضع قطع،رہن سہن اور چال ڈھال میں غیر مسلم پر غالب اوراس سے ممتاز ہو،اس امتیاز کے لیے ظاہری علامت داڑھی اور لباس وغیرہ مقرر کی گئی کہ لباس ظاہری اور خارجی علامت ہے۔اور خود انسانی جسم میں داڑھی اور ختنہ کو فارق قراردیا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے موقع بہ موقع اپنے اصحاب کو غیرمسلموں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ تمام ادیان میں صرف دینِ اسلام کو ہی جامع، کامل و اکمل ہونے کا شرف حاصل ہے، دنیا کے کسی خطے میں رہنے والا، کوئی بھی انسان ہو ، کسی بھی زبان کا ہو، کسی بھی نسل کا ہو، اگر وہ اپنی زندگی کے کسی بھی شعبے کے بارے میں راہنمائی لینا چاہتا ہو ،تواس کے لیے اسلام میں مکمل راہنمائی کا سامان موجود ہے،اگر کوئی انسان اسلام میں داخل ہو کر اسلام کی راہنمائی کے مطاب...
غیر ت آدمی کا اندرونی ڈر اور خوف ہے جو اس لیے رونما ہوتا ہےکہ وہ سمجھتا ہےکہ اس کے بالمقابل ایک مزاحم پید ہوا ہے عربی لغت کے مطابق غیرت خوداری اور بڑائی کا وہ جذبہ ہے جو غیر کی شرکت کو لمحہ بھر کے لیے برداشت نہیں کرتا ۔ غیرت کا تعلق فطرت سے ہے فطری طور پر تخلیق میں غیرت ودیعت کی گئی ہے غیرت سے محروم شخص پاکیزہ زندگی سے محروم ہے او رجس کے اندر پاکیزہ زندگی معدوم ہو تو پھر اس کی زندگی جانوروں کی زندگی سے بھی گئی گزری ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی ذات کے سلسلہ میں غیرت مند او رمنفعل بنایا ہے یہی وجہ ہے کہ انسان خواہ کتنا ہی مجبور ولاچار کیوں نہ ہو لیکن آخری دم تک اپنی عزت وآبرو کی حفاظت وصیانت میں جان کی بازی لگائے رکھتا ہے ۔جس قوم کے اندر غیرت وحمیت کا جذبہ موجود ہوگا اس کی نسل اور تعمیری زندگی گزار سکے گی اور وہی معاشرہ حسنِ اخلاق کا پیکر بن کر اعلیٰ اقدار کا مستحق بھی ہوگا۔حدیث کی رُو سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک غیرت دو طرح کی ہے غیر ت مبغوض اور غیر محبوب۔محبوب غیر ت وہ ہے جو&nb...
ہر ذی شعور مؤمن مسلمان پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عصر حاضر میں جان لیوا فتنوں سے زیادہ ایمان لیوا فتنوں کی بھرمار ہے، ایک راسخ العقیدہ اور پختہ ایمان والے کے لیے جان کا نقصان کوئی اتنا بڑا خسارہ نہیں، لیکن ایمان کا نقصان عظیم خسارہ ہے، فتنے تو خلافت راشدہ کے ختم ہوتے ہی رونما ہونا شروع ہوئے تھے، آئے روز کسی نئے رنگ و روپ میں ایسے فتنے رونما ہو رہے ہیں جو مسلمانوں کے لیے ایمان لیوا اور گمراہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’فتنوں کے وقت مسلمانوں کا موقف‘‘ ڈاکٹر محمد بن عمر بازمول(استاد جامعہ ام القریٰ) کی تصنیف ہے اس کتاب میں انہوں نے فتنوں کے وقت مسلمانوں کے موقف کو واضح کیا ہے اور کتاب و سنت سے دلائل کی روشنی میں اس کے لیے کچھ اصول و ضوابط بتائے ہیں جن پر کاربند ہو کر ایک مسلمان خود کو فتنوں سے بچا سکتا ہے ۔ نیز یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ کون سے لوگ ہیں جو فتنوں کا شکار ہوتے ہیں اور انکے کیا مقاصد ہوتے ہیں،نیز ایسے فتنوں سے معاشرے اور ملک و ملت پر کیا بھیانک اثرات مرتب ہوتے ہیں تاریخی وا...
اللہ تعالیٰ کے کچھ خوش نصیب بندے ایسے ہیں جو ایسے اعمال سرانجام دیتے ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان پر درود بھیجتے ہیں اور درود کا مطلب علمائے کرام نے انسان کے لیے فرشتوں کو دعا و استغفار کرنا بتلایا ہے۔ اور کچھ بدقسمت ایسے ہیں جو ایسے کاموں میں بدمست رہتے ہیں جو اللہ اور اس کے فرشتوں کی لعنت کا موجب بنتے ہیں۔ قرآن وسنت میں ایسے اعمال کی بالتفصیل بیان کردیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فضل الہٰی نے زیر تبصرہ کتاب میں قرآن وحدیث کی نصوص سے ایسے ہی خوش قسمت اور بدقسمت لوگوں کی فہرست مرتب کی ہے۔ مولانا نے احادیث شریفہ کو ان کے اصلی مراجع سے نقل کیا ہے۔ صحیحین کے علاوہ دیگر کتب حدیث سے منقولہ احادیث سے متعلق علمائے امت کے اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔ آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ سے استدلال کرتے وقت مفسرین اور محدثین کی تفاسیر اور شروح سے مقدور بھر استفادہ کیا گیا ہے۔ کتاب کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کا جائزہ لیں کہ ہمارا شمار کس فہرست میں ہوتا ہے۔ اور اگر اس سلسلہ میں کوئی کمی کوتاہی موجود ہے تو اس کو دور کرتے ہوئے اپنے آپ کو فرشتوں کے درود کے مستحق بنانے کی کوشش کریں۔ (ع۔...
اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں صحت اور فراغت بھی ہیں ان کا صحیح استعمال اور قدر دانی انسان کو عام انسانوں سےممتاز کرتی ، دنیا میں ترقی کے عروج سے نوازتی اور اُخروی کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے، مسلمان کی زندگی میں اصل تو یہ ہے کہ اس میں فراغت کا کوئی بیکار وقت ہوتا ہی نہیں کیونکہ مسلمان کا وقت اور اس کی عمر اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہوتے ہیں اور اسلامی تعلیم و تربیت نوجوانوں میں یہ شعور پیدا کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر لمحہ اور ہر گھڑی کواللہ تعالیٰ کی امانت سمجھیں اور اسے خیر و بھلائی کے کاموں میں صرف کریں ، خود نبی اکرم ﷺ نے ہماری فرصت و فراغت کی ہر گھڑی سے استفادہ کرنے کی دعوت دی ہے؛ فرمایا’’ پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کے وجود کو غنیمت سمجھیں ۔‘‘ان پانچ چیزوں میں سےایک مشغولیت سے پہلے فراغت ہے۔ زیر نظر کتاب’’ فرصت کے لمحات ‘‘ تین ائمہ حرم فضیلۃ الشیخ سعود الشریم ، فضیلۃ الشیخ عبد الباری الثبيتي،فضیلۃ الشیخ صلاح البدیر حفظہم اللہ کے خطبات سےوقت کی قدر وقیمت سے متعلق&n...
عصر حاضر کے جدید مسائل میں سے ایک اہم ترین مسئلہ فوٹو گرافی یا عکسی تصاویر کا بھی ہے، جسے عربی زبان میں صورۃ شمسیہ کہا جاتا ہے، جو دور حاضر میں انسانی زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے۔آج کوئی بھی شخص جو فوٹو گرافی کو جائز سمجھتا ہو یا ناجائز سمجھتا ہو ،بہر حال اپنی معاشی ،معاشرتی اور سماجی تقاضوں کے باعث فوٹو بنوانے پر مجبور ہے۔اس مسئلہ میں اگر افراد کے اذہان ورجحانات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت دو متضاد انتہاؤں پر پائی جاتی ہے۔کچھ لوگ ایسے ہیں جو ہر قسم کی تصاویر ،عکسی تصاویر اور مجسموں کو سجاوٹ اور (مذہبی اور غیر مذہبی)جذباتی وابستگی کے ساتھ رکھنے اور آویزاں کرنے میں کوئی مضائقہ اور کوئی حرج محسوس نہیں کرتے ہیں۔ان میں عام طور پر وہ لوگ شامل ہیں جن کا دین سے کوئی بھی تعلق برائے نام ہی ہے۔جبکہ دوسری انتہاء پر وہ لوگ پائے جاتے ہیں ،جو ہر قسم کی تصاویرخواہ وہ ہاتھ سے بنائی گئی ہوں یا مشین اور کیمرے کے ذریعے سے،انہیں مطلقا حرام سمجھتے ہیں ،مگر اس کے باوجود قومی شناختی کارڈ،پاسپورٹ ،کالج اور یونیورسٹی میں داخلے کا فارم اور بعض دی...
ڈاکٹر طہ جابر علوانی (1935-2016) عراق کےشہر فلوجہ میں پیدا ہوئے ۔ڈاکٹر موصوف علمی دنیا کا ایک اہم نام ہے۔ فقہ اسلامی اور فکر اسلامی دونوں میں انہوں نے اپنی ایک پہچان بنائی اور اپنے اجتہادی فکر و فلسفہ کے ذریعہ دونوں کو ہم آہنگ کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ ابتدائی تعلیم تو وطن(عراق) میں ہی حاصل کی لیکن ثانویہ سے لے کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری تک کی تعلیم جامعہ ازہر قاہرہ میں حاصل کی، اور فقہ و اصولِ فقہ کو ہی اپنی تحقیق و دراسہ کا میدان بنایا اور مقاصد شریعت کے موضوع کو اُجاگر کرکے اپنی وسعتِ فکری کو جلا بخشی اور تقریباً ساٹھ سالوں تک اپنی خطابت و کتابت سے علمی دنیا کو سیراب کرتے رہے۔ آپ سن 1981 میں ہیر نڈن ، ورجینیا، امریکہ میں قائم ہونے والے ادارے المعہد العالمی للفکر الاسلامی (IIIT) کے بانیوں میں سے ہیں1984 سے 1986 تک اس ادارہ کے نائب صدر اور اس ادارہ کے تحت قائم شعبہ ریسرچ واسٹڈیز کے صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ زیر نظر کتاب ’’فکراسلامی کی اصلاح امکانات اور دشواریاں
ڈاکٹر طہ جابر علوانی (1935-2016) عراق کےشہر فلوجہ میں پیدا ہوئے ۔ڈاکٹر موصوف علمی دنیا کا ایک اہم نام ہے۔ فقہ اسلامی اور فکر اسلامی دونوں میں انہوں نے اپنی ایک پہچان بنائی اور اپنے اجتہادی فکر و فلسفہ کے ذریعہ دونوں کو ہم آہنگ کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ ابتدائی تعلیم تو وطن(عراق) میں ہی حاصل کی لیکن ثانویہ سے لے کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری تک کی تعلیم جامعہ ازہر قاہرہ میں حاصل کی، اور فقہ و اصولِ فقہ کو ہی اپنی تحقیق و دراسہ کا میدان بنایا اور مقاصد شریعت کے موضوع کو اُجاگر کرکے اپنی وسعتِ فکری کو جلا بخشی اور تقریباً ساٹھ سالوں تک اپنی خطابت و کتابت سے علمی دنیا کو سیراب کرتے رہے۔ آپ سن 1981 میں ہیر نڈن ، ورجینیا، امریکہ میں قائم ہونے والے ادارے المعہد العالمی للفکر الاسلامی (IIIT) کے بانیوں میں سے ہیں1984 سے 1986 تک اس ادارہ کے نائب صدر اور اس ادارہ کے تحت قائم شعبہ ریسرچ واسٹڈیز کے صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ زیر نظر کتاب ’’فکراسلامی کی اصلاح امکانات اور دشواریاں
لعنت دھتکار اور پھٹکار کا عربی نام ہے اور لعنت ایک بدعا ہے اس کا معنیٰ اللہ کی رحمت سے دور ہونے اور محروم ہونے کے ہیں۔ جب کوئی کسی پر لعنت کرتا ہے توگویا وہ اس کے حق میں بدعا کرتا ہے کہ تم اللہ کی رحمت سے محروم ہو جاؤ رسول کریم ﷺ نے کسی پر لعنت کرنے کو بڑی سختی سے منع کیا فرمایا ہے یہاں تک کہ بے جان چیزوں پر بھی لعنت کرنے سے منع کیا ہے ۔ لعنت اور ناشکری جہنم میں جانے کا باعث بن سکتے ہیں جیسے کہ نبی ﷺ نے فرمایا’’ اے عورتو! صدقہ کیا کرو میں نےجہنم میں دیکھاکہ اس میں عورتوں کی تعدادزیادہ ہے عورتوں نےعرض کیا یارسول اللہﷺ اس کی کیاوجہ ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم لعنت زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو ‘‘۔ جس شخص پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی لعنت ہو اس کی دینوی اخروی ذلت ورسوائی میں قعطا کوئی شک وشبہ نہیں او روہ خسارے ہی خسار...
محبوب حقیقی اللہ ہی ہے۔اس کی محبت سب محبتوں پر غالب ہونی چاہئے۔اس کی محبت میں کسی غیر کی محبت کو شریک کرنا کفر اور شرک ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں :اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اللہ سے ہٹ کر اوروں کو اس کا ہم پلہ بناتے ہیں۔ ان سے یوں محبت کرتے ہیں جیسے اللہ سے محبت کرنی چاہئے۔اور جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں انہیں شدید ترین محبت اللہ ہی سے ہوتی ہے۔سیدنا ابوہریرہ ؓ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔ اور میرا بندہ میری فرض کی ہوئی چیزوں کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا ہے اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ زیر تبصرہ کتاب "قربت کی راہیں" جماعت اہل حدیث کے معروف عالم دین محترم مولانا سید ابو بکر غزنوی سابق وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے ان اعمال کو جمع فرما دیا ہے جن کے ذریعے انسان اللہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے، اور اس کا محبوب بندہ بن سکتا ہے۔ ا...
اسلام میں موسیقی اور گانے بجانے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے واضح الفاظ میں اس حوالے سے وعید کا تذکرہ کیاہے۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" میرى امت میں سے ایسے لوگ ضرور پیدا ہونگے جو شرمگاہ [زنا] ’ ریشم ’ شراب اور گانا وموسیقی کو حلال کرلیں گے" یہ دل میں نفاق پیدا کرنے اور انسان کو ذکرالہی سے دور کرنے کا سبب ہے۔ ارشادِباری تعالی ہے: ﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَرى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا ۚ أُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ﴾( سورة القمان)" لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو لغو باتو ں کو مول لیتے ہیں تاکہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے مذاق بنائیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے رسوا کن عذاب ہے"جمہور صحابہ وتابعین اور عام مفسرین کے نزدیک لہو الحدیث عام ہے جس سے مراد گانا بجانا اور اس کا ساز وسامان ہے او ر سازو سامان، موسیقی کے آلات او رہر وہ چیزجو انسان کو خیر او ربھلائی سے غافل کر دے اور اللہ کی عبادت سے دور کردے۔ اس میں ا...
ہنسنا ہنسانا ایک جائز کام ہے جیسا کہ حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عملی نمونوں سے واضح ہوتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی مصیبتوں اور سختیوں کو برداشت کرنے میں ہنسنے ہنسانے والی کیفیت بڑا رول ادا کرتی ہے۔ ہنسی مذاق جائز ہے لیکن حد کے اندر کیوں کہ کسی بھی چیز کی زیادتی مضر ہوتی ہے،جھوٹی باتیں گھڑ کر لوگوں کو ہنسانے کی کوشش نہ کی جائے،ہنسی مذاق کے ذریعے کسی کی تحقیر وتذلیل نہ کی جائے۔الا یہ کہ وہ خود اسکی اجازت دے دے اور اس پر ناراض نہ ہو۔کسی کی تحقیر کرنابڑاگناہ ہے جیسا کہ قرآن میں ہے: ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا يَسخَر قَومٌ مِن قَومٍ... ﴾ (الحجرات)’’اے ایمان والو!لوگوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کامذاق نہ اُڑائیں۔ ڈاکٹر بدر الزماں محمد شفیع نیپالی حفظہ اللہ نے زيرنظر كتاب ’’لاک ڈاؤن میں ہنسی مذاق‘‘میں کتاب وسنت کی روشنی میں ہنسی مذاق کے...
جدیدیت ان نظریاتی تہذیبی ،سیاسی اور سماجی تحریکوں کے مجموعے کا نام ے جو 17ویں اور 18 صدی کے یورپ میں روایت پسندی اورکلیسائی استبداد کے ردّ عمل میں پیدا ہوئیں۔یہ وہ دور تھا جب یورپ میں کلیسا کا ظلم اپنے عروج پر تھا ۔اور مابعدجدیدیت؍پس جدیدیت دراصل جدیدیت کے ردّ عمل کانام ہے ۔اور مابعدجدیدیت آج کے دور کافلسفہ، ترقی یافتہ معاشروں کا عقیدہ طرزِ زندگی، معاشرتی صورت حال اور نظریہ حیات کانام ہے اردو میں مابعدجدیدیت پر علمی انداز سے مذہبی موقف کوبہت کم پیش کیا گیا ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’مابعدجدیدیت اور اسلامی تعلیمات ‘‘ پروفیسر ڈاکٹر احمد ندیم کی کاوش ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جدیدیت ہو یامابعدجدیدیت کوئی بھی نظریہ اسلام کی صاف ستھری اور پرازحکمت تعلیمات کے لیے چیلنج کا درجہ نہیں رکھتا۔اسلام کی رہنمائی آفاقی، ابدی،سرمدی اور ناقابل تغیر ہےاسی لیے قرآن کریم چیلنج کرتا ہے ۔ا...
جدیدیت ان نظریاتی تہذیبی ،سیاسی اور سماجی تحریکوں کے مجموعے کا نام ے جو 17ویں اور 18 صدی کے یورپ میں روایت پسندی اورکلیسائی استبداد کے ردّ عمل میں پیدا ہوئیں۔یہ وہ دور تھا جب یورپ میں کلیسا کا ظلم اپنے عروج پر تھا ۔اور مابعدجدیدیت؍پس جدیدیت دراصل جدیدیت کے ردّ عمل کانام ہے ۔اور مابعدجدیدیت آج کے دور کافلسفہ، ترقی یافتہ معاشروں کا عقیدہ طرزِ زندگی، معاشرتی صورت حال اور نظریہ حیات کانام ہے اردو میں مابعدجدیدیت پر علمی انداز سے مذہبی موقف کوبہت کم پیش کیا گیا ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’مابعدجدیدیت اور اسلامی تعلیمات ‘‘ پروفیسر ڈاکٹر احمد ندیم کی کاوش ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جدیدیت ہو یامابعدجدیدیت کوئی بھی نظریہ اسلام کی صاف ستھری اور پرازحکمت تعلیمات کے لیے چیلنج کا درجہ نہیں رکھتا۔اسلام کی رہنمائی آفاقی، ابدی،سرمدی اور ناقابل تغیر ہےاسی لیے قرآن کریم چیلنج کرتا ہے ۔ا...
آج ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں‘ یہ مغربی تہذیب کے غلبہ کا دور ہے۔یہ تہذیب اپنے طاقتور آلات کے ذریعہ ملکی سرحدوں کی حدود‘ درسگاہوں اور گھروں کی دیواروں کو عبور کر کے‘ افراد کے دل کی گہرائیوں تک پہنچ چکی ہے۔ عورت ومرد اس تہذیب کے مظاہر پر فریفتہ ہو رہے ہیں۔ اس تہذیب کی پیدا کردہ ایجادات نے اگرچہ انسان کو بہت ساری سہولتیں بھی پہنچائی ہیں‘ آمد ورفت اور رابطہ میں آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں‘ گرمی وسردی سے بچاؤ کےلیے انتظامات ہو گئے ہیں‘ خوبصورتی اور زیب وزینت کے نت نئے سامان ایجاد ہوئے ہیں‘ انسانی جسم کو لاحق بعض اہم بیماریوں کے علاج میں سہولتیں پیدا ہو گئی اور ظاہری روشنی اور چمک دمک میں اضافہ ہو ا ہے لیکن اس کے کئی ایک نقصانات بھی جیسا کہ رشتوں کی اہمیت گنوا دی گئی ہے لوگ ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں اور مالداروں کو احساس برتری اور غریبوں کو احساس کمتری کے امراض میں مبتلا کر دیا گیا ہے غرض اس مادی تہذیب نے رونق اور زیب وزینت کے نت نئے سامان کی قیمت پر انسان کے دل اور روح کو آخری حد تک بے چین کر دیا ہے۔ دل رو...
ماں اس ہستی کا نام ہے جو زندگی کے تمام دکھوں اور مصیبتوں کو اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے۔ اپنی زندگی اپنے بچوں کی خوشیوں، شادمانیوں میں صَرف کرتی چلی آئی ہے اور جب تک یہ دنیا قائم و دائم ہے یہی رسم جاری رہے گا۔یوں تو دنیا میں سبھی اشرف المخلوقات چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، چاہے کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو ماں ہر ایک کے لیئے قابلِ قدر ہے۔ اسلامی تعلیم کی روشنی میں اللہ کی طرف سے ماں دنیائے عظیم کا سب سے خوبصورت تحفہ ہے۔ ماں تو ایک ایسا پھول ہے جو رہتی دنیا تک ساری کائنات کو مہکاتی رہے گی۔ اس لئے تو کہتے ہیں کہ ماں کا وجود ہی ہمارے لئے باعثِ آرام و راحت، چین و سکون، مہر و محبت، صبر و رضا اور خلوص و وفا کی روشن دلیل ہے۔ماں اپنی اولادوں کے لیے ایسا چھاؤں ہے جس کا سایہ کبھی ختم نہیں ہونے والا ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق بنی نوع انسان پر حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد میں سے سب سے زیادہ حق اس کے والدین کا ہوتا ہے۔ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! مجھ پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپ نے فرمایا :تیری ماں کا۔ اس نے دوبارہ اور...
انسان کے لیے گھر اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے او ر اللہ تعالی نے کتاب ِمبین میں گھر کی سہولت کی دستیابی کواپنا انعام قرار دیا ہے ۔انسان جب اپنے چاروں اطراف نظر دوڑائے تو کتنے ہی لوگ ایسے نظر آئیں گے ، جو گھر جیسی نعمت سے محرومی کی وجہ سے سڑکوں کے کنارروں اور پارکوں میں پڑے راتیں بسر کرتے ہیں یا چھت کی عدم دستیابی کے سبب خیموں میں زندگی کے دن گزار نے پر مجبور ہیں ۔ ایسی صورت میں گھر کی سہولت جیسی نعمت کا احساس دو چند ہوجاتا ہے اوراس نعمت غیر مترقبہ پر اللہ تعالی کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے ۔چونکہ گھر کا میسر آنا انسان کے لیے سعادت مندی کی علامت او راللہ کریم کی بہت بڑی نعمت ہے ،اس اعتبار سے گھر کے سر پرست پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن پرعمل پیرا ہو کر وہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے نجات کاساماں کرسکتا ہے او ر روز ِقیامت اپنی مسؤلیت سے عہدہ برآ ہوسکتا ہے ۔گھریلو معاملات کی اصلاح اور اولاد ووغیرہ کی دینی واخلاقی تربیت گھر کےسر پرست کی ذمہ داری ہے ۔زیر نظر کتا ب''مثالی گھر'' مولانا فاروق رفیع ﷾ (مدرس جامعہ لاہور الاسلامیہ) کی تصنیف ہے...
حبِ رسول ﷺ اہل ایمان کے لیے ایک روح افزاءباب کی حیثیت رکھتا ہے۔ حبِ رسول ﷺ کے بروئے شریعت کچھ تقاضے ہیں۔ خود نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ مجھے اپنی جان، مال، اولاد، ماں باپ غرض جمیع انسانیت سے بڑھ کر محبوب نہ سمجھے‘‘۔ محبت رسول ﷺ کا مظہر اطاعتِ رسول ہے ۔ رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت کےبغیر مومن ہونے کا دعویٰ منافقت کی بیّن دلیل ہے اور حب رسول ﷺ ہی وہ پیمانہ ہےجس سے کسی مسلمان کے ایمان کوماپا جاسکتا ہے۔ دعوائے محبت ہو اوراطاعت مفقود ہو تو دعویٰ کی سچائی پر حرف آتاہے۔ حب رسولﷺ کےتقاضوں میں سے ایک تقاضا تو نبی ﷺ کا ادب و احترام کرنا، آپ سے محبت رکھنا ہے۔ ۔پیغمبر اعظم وآخر الزمان ﷺ کا یہ اعجاز بھی منفرد ہے کہ آپ کے جان نثاروں کی زندگیاں جہاں محبتِ رسول کی شاہکار ہیں وہاں ہر ایک کی زندگی سنت رسولﷺ کی آئینہ دار ہے۔ ان نفوس قدسیہ نے دونوں جہتوں میں راہنمائی کا عظیم الشان معیار قائم فرمایا ہے۔صحابہ کرام نبی کریم ﷺ سے سچی محبت کرتے تھے اوراس محبت میں مال ودولت کیا جان تک قربان کردیتے تھے تاریخ...
دورِ حاضر میں مخلوط معاشرہ انتہائی خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے ۔مخلوط معاشرے کی ابتدا کہاں سے ہوئی ؟ یہ جاننا ایک مشکل امر ہے لیکن اس دعوے میں کوئی اشتباہ اور باک نہیں ہے کہ اس کی ابتدا ان معاشروں میں ہوئی جن میں الہامی تعلیمات سے انتہائی زیادہ روگردانی کے جراثیم پھیل گئے او ر انہوں نے الہامی تعلیمات کے برعکس ہرکام انجام دینا اپنے اورلازم کرلیا۔غیر مسلم معاشرے مشرق کے ہوں یا مغرب کے ان میں نہ تو خوف آخرت پایا جاتا ہے نہ توحید کا اقرار ،ان کی مذہبی رسومات وروایات میں مخلوط معاشرہ کسی نہ کسی سطح پر ضرور پایا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کی زندگی میں مخلوط ،معاشرے کا در آنا ایک المیہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ زیر نظر کتابچہ میں محترمہ ام عبد منیب صاحبہ نے واضح کیا ہے کہ قرآن وحدیث میں مخلوط معاشرے سے بچاؤ کے لیے وسیع پیمانے پر احکامات بیان کیے گئے ہیں اور ان کےایک ایک جزو کی تفصیل بھی موجود ہے تاکہ مخلوط معاشرے کے ایمان پرمسموم اثرات سے فرد اور جماعت دونوں محفوظ رہیں۔اللہ اس کتابچہ کو عوام الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین) محترمہ ام عبد...
پیغمبرِ اسلام کے رفعت ذکر کے متنوع مظاہر میں سے ایک مظہر یہ ہے کہ آپ ﷺ کی ذات ستودہ صفات اورتعلیمات پر آئے روز نئی نئی کتابیں اور مقالات لکھے جا رہے ہیں اور دنیا کے گوشے گوشے میں بسنے والے انسان اپنی ضرورت اور ذوق کے مطابق ان کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ تاریخ و سیرت اور احادیث کی کتب کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو آقائے دو جہاںؐ کا برپا کردہ معاشرہ اپنی ساری رعنائیوں اور تابانیوں کے ساتھ پڑھنے والے کے سامنے آجاتا ہے۔ ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری نے زیرِ نظر کتاب ’’المجتمع المدنی فی عھد النبوۃ‘‘ میں سیرت نگاری کا ایک جدید منہج متعارف کرایا ہے جو محدثین کے اصولِ تحقیق کے بھی مطابق ہے اور جدید مغربی مؤرخین کے اختیار کردہ اصولِ تحقیق پر بھی پورا اترتا ہے۔ اس قابلِ قدر کتاب کو اردو قالب میں منتقل کرنے کی سعادت مرحومہ عذرا نسیم فاروقی کے حصے میں آئی ہے۔ اور یہ ’’مدنی معاشرہ، عہد رسالت میں‘‘ کے نام سے مطبوعہ شکل میں پیش خدمت ہے۔ (م۔ آ۔ ہ)
ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ 712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857 کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ برطانوی سامراج جس کی ابتداء 1757 ء کو ہوئی تھی کا خاتمہ 1947 ء کو ہوا۔ محمد بن قاسم نے دمشق میں موجود مسلمان خلیفہ الولید اور بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کی آشیر باد سے، 712 ء میں ہندوستان پر حکمرانی کا آغاز کیا ۔ 1590ء تک مسلمان حکمران شہنشاہ اکبر تقریباً پورے ہندوستان پر قابض ہو چکا تھا۔ اورنگ زیب کے دور (1657-1707) میں اس سلطنت میں کچھ اضافہ ہوا۔ زیر تبصرہ کتا ب ’’ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے عہد کے تمدنی جلوے‘‘ دار المصنفین کے رفیق سید صباح الدین عبد الرحمٰن کی مرتب شدہ ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے سلاطین دہلی اور شاہان مغلیہ کے عہد کے دربار،محلات، حرم، لباس، پارچہ بافی، زیورات، جوہرات، خوشبوئیات، خورد و نوش، ساز وسامان، تہوار، تقریبات، موسیقی، اور مصوری وغیرہ کی مکمل تفصیل بیان کی...