سرمایہ دارانہ نظامایک معاشی و معاشرتی نظام ہے جس میں سرمایہ بطور عاملِ پیدائش نجی شعبہ کے اختیار میں ہوتا ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں کرنسی چھاپنے کا اختیار حکومت کی بجائے کسی پرائیوٹ بینک کے اختیار میں ہوتا ہے۔اشتراکی نظام کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام میں نجی شعبہ کی ترقی معکوس نہیں ہوتی بلکہ سرمایہ داروں کی ملکیت میں سرمایہ کا ارتکاز ہوتا ہے اور امیر امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس میں منڈی آزاد ہوتی ہے اس لیے اسے آزاد منڈی کا نظام بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ آج کل کہیں بھی منڈی مکمل طور پر آزاد نہیں ہوتی مگر نظریاتی طور پر ایک سرمایہ دارانہ نظام میں منڈی مکمل طور پر آزاد ہوگی۔ جملہ حقوق، منافع خوری اور نجی ملکیت اس نظام کی وہ خصوصیات ہیں جس سے سرمایہ دارانہ نظام کے مخالفین کے مطابق غریبوں کا خون چوسا جاتا ہے۔ جدید دانشوروں کے مطابق آج سرمایہ دارانہ نظام اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اور ایک متبادل نظام کی آوازیں شدت سے اٹھنا شروع ہو گئیں ہیں۔مختصراًسرمایہ دارانہ نظام یہ کہتا ہے کہ ذاتی منافع کے لئے اور ذاتی دولت و جائیداداور پیداواری وسائل رکھنے میں ہر شخ...
دین اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اور وہ یہ ہیں: گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی الہٰ نہیں اورمحمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور روزہ رکھنا۔ ایک مسلمان کی کامیابی کا دارومدار اس پر ہے کہ وہ کم ازکم ارکان اسلامی کی پابندی ضرور کرے اور ان میں کسی قسم کی کوتاہی نہ بجا لائے۔ پیش نظر کتاب ' ان مول تحفہ' میں تمام ارکان اسلام پر قرآن وحدیث اور اقوال سلف صالحین کی مدد سے تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ کتاب یقیناً اس اعتبار سے قیمتی تحفہ ہے کہ نہایت آسان فہم انداز میں ارکان اسلام کا مکمل تعارف پیش کی گیا ہے۔ 'انمول تحفہ' یقینی طور پر ہر گھر اور ہر فرد کی ضرورت ہے۔
سگریٹ نوشی ان ممنوعات میں سے ہے جو خبیث، نقصان دہ اور گندی ہونے کی وجہ سے ناجائز ہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ.’’(نبی مکرم ﷺ)ان (اہلِ ایمان) کے لیے پاکیزہ صاف ستھری چیزیں حلال بتاتے ہيں اور خبائث کو حرام کرتے ہيں۔‘‘ (الأعراف: 157) سگریٹ نوشی سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات واضح ہیں، یہی وجہ ہے کہ سارى انسانیت اس كے خلاف جنگ میں مصروف ہے یہاں تک کہ سگریٹ بنانے والے بھی ہر ڈبی پر ’’مضر صحت ہے‘‘ لکھ کر اس سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ شرعِ متین کا تو اولین مقصد ہی انسانی جان و مال کی حفاظت ہے اور اسی لیے ہر نقصان دہ و ضرر رساں شے حکمِ شریعت کی رو سے ممنوع ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ اور سگریٹ چھوٹ گئی مع تمباکو نوشی کی تباہ کاریاں ‘‘ تمباکو نوشی سے خلاصی پانے والے شیخ احمد سالم بادویلان کی آپ بیتی پر مشتمل کتاب وهكذا أطفأت السيجارة ا...
یہ چھوٹا سا کتابچہ محترم سلیم رؤف صاحب کے دیگر اصلاحی کتابچوں کی طرح روز مرّہ زندگی میں سرزد ہونے والی عملی کوتاہیوں، دین سے دوری، مغربیت اور مادہ پرستانہ ذہن کی اصلاح کیلئے نہایت سادہ، شستہ اور رواں واقعاتی اسلوب میں تحریر کی گئی ایک عمدہ کاوش ہے۔ چند صفحات پر مشتمل زیر تبصرہ کتابچہ کا موضوع دنیاوی زندگی کی بے ثباتی اور موت کی تیاری کو بنایا گیا ہے۔ دردمندانہ انداز میں لکھی گئی ایک خوبصورت اصلاحی تحریر ہے۔
بے شک جھوٹ برے اخلاق میں سے ہے ,جس سے سب ہی شریعتوں نے ڈرایا ہے ،جھوٹ نفاق کی نشانی ہے اور اللہ کے رسولﷺنے اس کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے۔ آپ ﷺکے فرمان کے مطابق جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ ہمیشہ سچ بولے یا خاموش رہے، مزید براں اللہ کے رسول ﷺنے اس شخص پرخصوصی طور پر لعنت فرمائی ہے جو جھوٹ بول کر لوگوں کو ہنساتا ہے۔ آج کل لوگ مزاح کے نام پر انتہائی جھوٹ گھڑتے ہیں اور لوگوں کو جھوٹے لطائف سنا کر ہنساتے ہیں ۔ آپ ﷺکے اقوال مبارکہ کی روشنی میں اپریل فول جیسی باطل رسوم وروایات کو اپنانے اور ان کا حصہ بن کر لمحاتی مسرت حاصل کرنے والے مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ ایسا کر کے وہ غیر مسلم مغربی معاشرے کے اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں جس کی رو سے لوگوں کو ہنسانے،گدگدانے اور انکی تفریح طبع کا سامان فراہم کرنے کے لیے جھوٹ بولناانکے نزدیک جائز ہے جبکہ آپ ﷺکے فرمان کے مطابق جھوٹ کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دینا اور انہیں تفریح فراہم کرنااور ہنسانا سخت موجبِ گناہ ہے۔کتاب وسنت میں جھوٹ کی شدید ممانعت آئی ہے.اوراس کی حرمت پراجماع ہے.اورجھوٹے شخص کیلئے دنیا وآخرت...
اسلام ایک آفاقی مذہب ہے۔ اس نے زندگی کے تمام شعبہ جات کے لیے اپنے ماننے والوں کو بہترین اور عمدہ اصول وقوانین پیش کیے ہیں۔ اخلاقی زندگی ہو یا سیاسی، معاشرتی ہو یا اجتماعی اور سماجی ہر قسم کی زندگی کے ہر گوشہ کے لیے اسلام کی جامع ہدایات موجود ہیں اور اسی مذہب میں ہماری نجات مضمر ہے۔مگر آج ہمیں یورپ اور یہودونصاریٰ کی تقلید کا شوق ہے اور مغربی تہذیب کے ہم دلدادہ ہیں۔ یورپی تہذیب وتمدن اور طرزِ معاشرت نے مسلمانوں کی زندگی کے مختلف شعبوں کو اپنے رنگ میں رنگ دیا ہے۔ مسلمانوں کی زندگی میں انگریزی تہذیب کے بعض ایسے اثرات بھی داخل ہوگئے ہیں، جن کی اصلیت وماہیت پر مطلع ہونے کے بعد ان کو اختیار کرنا انسانیت کے قطعاً خلاف ہے۔مگر افسوس کہ آج مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ان اثرات پر مضبوطی سے کاربند ہے۔ حالاں کہ قوموں کا اپنی تہذیب وتمدن کو کھودینا اور دوسروں کے طریقہٴ رہائش کو اختیار کرلینا ان کے زوال اور خاتمہ کا سبب ہوا کرتا ہے۔یہود ونصاریٰ کی جو رسومات ہمارے معاشرہ میں رائج ہوتی جارہی ہیں، انھیں میں سے ایک رسم ”اپریل فول“ منانے کی رسم بھی ہے۔ اس رسم کے تحت...
اپریل فول منانے کی روایت کو بد قسمتی سے اغیار کی اندھی تقلید میں مسلمانوں نے بھی اپنا لیا ہے،اور ہر سال نہایت ہی جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں اور پھر اپنی کامیابیوں پر فخر کرتے ہوئے اور اپنے شکار کی بے بسی کو یاد کرکے اپنی محفلوں کو گرماتے رہتے ہیں۔ آج اپریل فول کا یہ فتنہ امت مسلمہ کی نوجوان نسل کے اخلاق کی پامالی کا سبب بن رہا ہے جسے وہ یہود و نصاریٰ کی پیروی کرتے ہوئے جھوٹ بول کر اپنے احباب و اقرباء کو بے وقوف بنانے کے لیے مناتے ہیں۔ اپریل فول کا جھوٹ اور مذاق بےشمار لوگوں کی زندگیوں میں طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ اپریل فول کاشکار ہونے والے کئی لوگ ان واقعات کے نتیجے میں شدید صدمے میں مبتلا ہوکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، کئی مستقل معذوری کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لیے گھر کی چہار دیواری تک محدود ہوجاتے ہیں، کتنے گھروں میں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں اور کتنے خوش و خرم جوڑے مستقلًا ایک دوسرے سے متعلق شکوک وشبہات کا شکار ہو جاتے ہیں اور مذاق کرنے والے ان سارے ناقابل تلافی صدمات اور نقصانات کا کسی طور پر بھی کفارہ ادا نہیں کر سکتے۔ مسلمانوں کے لیے ان غیر شر...
اسلام ایک مکمل اور ضابطۂ حیات ہے۔ اسلام واحد دین ہے جس نے اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر گوشے اور ہر پہلو کی رہنمائی کی ہے۔ اسلام سے محبت کرنے والے ہر شخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے شب وروز قرآن وسنت اور اسلام کی دی گئی تعلیمات کے مطابق بسر کرے۔ دنیاوی زندگی کا کوئی بھی معاملہ ہو اسے قرآن وسنت کے سانچےمیں ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دنیاوی معاملات میں ایک اہم معاملہ اپنی شخصیت کو کیسے اور کس قدر سنوارنا ہے کہ لوگ اُسے پسند کریں اور ظاہر ہے کہ شریعت نے ہر معاملے میں رہنمائی فرمائی ہے۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ وہ رہنمائی کیا ہے جو شریعت نے دی ہے؟ زیرِ تبصرہ کتاب میں اسی بات کی طرف رہنمائی کی گئی ہے اور تفصیلاً گفتگو بھی کی گئی ہے۔ اس کتاب کی ترتیب اور اسلوب عمدہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں مؤلف نے سات ابواب قائم کیے ہیں۔ پہلے باب میں انسانی شخصیت کے بارے میں کچھ اہم باتیں مذکور ہیں کہ اس میں کیا کیا صفات ہوں‘ دوسرے باب میں ملاقات کے اسلوب بتائے گئے ہیں‘ تیسرے میں ملنے والوں کو مختلف انداز میں اہمیت دینے کے بارے میں‘ چوتھے میں ملاقات کرنے...
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ دنیا کے کفار بالخصوص ہنود و یہود اور صلیبی امت مسلمہ کی تباہی کے لیے کمر بستہ ہو چکے ہیں۔ انھوں نے یہ سازشی منصوبہ بنایا ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کے اس مضبوط خاندانی نظام کو تباہ کر دیں کہ جس کی بنا پر ایسے افراد جنم لے رہے ہیں جونہ صرف ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرأت کرتے ہیں بلکہ ان کی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ان کے ذرائع ابلاغ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا وغیرہ خاص طور پر ان کے مشن کو مسلمانوں میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ محترمہ روبینہ نقاش نے یہ کتاب اسی لیے ترتیب دی ہے کہ ان ذرائع و اسباب سے آگاہی حاصل کی جائے کہ جن کے ذریعے کفر ہمیں صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتا ہے، تاکہ اپنے خاندانوں اور مسلم گھرانوں کو تباہی و بربادی سے بچایا جا سکے۔ یہ بربادی کس کس طرح ہمارے گھروں میں داخل ہو رہی ہے؟ اور اس سے ہم نے اپنے آپ کو کیسے بچانا ہے؟ یہی اس کتاب کا موضوع ہے۔ کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے حصے میں ان محرکات کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی وجہ سے ہمارے گھر بربادی کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اور واقعتاً یہ...
اکیسویں صدی جہاں سائنسی ایجادات و اکتشافات، ٹیکنالوجی ، آزادی، مساوات، عدل و انصاف، بنیادی انسانی حقوق، حقوقِ نسواں جیسے تصورات کی صدی قرار پائی وہیں یہ صدی اپنے جلو میں بے شمار سماجی اور اختلافی مسائل بھی ساتھ لے کر آئی ہے۔ ان مسائل نے انسانی زندگی کو پیچیدہ بنانے، فتنہ وفساد، پریشان خیالی اور بے راہ روی سے دوچار کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دنیا فتنہ و فساد کی آماج گاہ، اخلاق و شرافت سے عاری اور مادرپدر آزادی کے ساتھ انسان کو حیوان اور معاشرے کو حیوانی معاشرے کی صورت میں پیش کر رہی ہے۔اس صدی کی رنگارنگی اور بوقلمونی سے جنم لیتے مسائل تو بے شمار ہیں لیکن ان میں سے چند اہم مسائل پر معروف عالم دین،محقق اور مصنف ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے قلم اُٹھایا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب " اکیسویں صدی کے سماجی مسائل اور اسلام "میں کل گیارہ مضامین ہیں ، جن میں نکاح کے بغیر جنسی تعلق، جنسی بے راہ روی اور زناکاری، رحم مادر کا اُجرت پر حصول، ہم جنسیت کا فتنہ، مصنوعی طریقہ ہاے تولید، اسپرم بنک: تصور اور مسائل، رحمِ مادر میں بچیوں کا قتل،...
علمائے اسلام نے دینِ اسلام او رعقیدۂ توحید کی ترویج دعوت وتبلیغ ،درس وتدریس ، تصنیف وتالیف ،مضامین ومقالات کے ذریعہ کی ہے بعض علماء نے مختلف موضوعات پر ضخیم کتب او رچھوٹے رسائل و کتا بچہ جات تحریر کئے ہیں۔ قارئین کے لیے بڑی ضخیم کتب کی بنسبت ان چھوٹے رسائل ،کتابچہ جات اور مضامین ومقالات سے استفادہ کرنا آسان ہے ۔بعض ناشرین کتب نے ان رسائل کو افادۂ عام کے لیے یکجا کر کے شائع کیا ہے جیسے کہ مقالات شبلی، مقالات راشدیہ ،مقالات محدث گوندلوی ، مقالات مولانا محمد اسماعیل سلفی،مقالات شاغف ،مقالات اثری، مقالات پر وفیسر عبد القیو م وغیرہ یہ مذکورہ تمام مقالات تقریبا کتاب وسنت ویب سائٹ پر موجود ہیں۔زیر نظر کتاب اسی سلسلے میں جید عرب علماء ومشائخ (شیخ ابن باز، شیخ صالح بن فوزان ، شیخ عبد اللہ بن عبد الرحمن الجبرین ،شیخ محمد بن عبد اللہ السبیل وغیر ہ) کے مختلف موضوعات پر مشتمل مقالات ومحاضرات کا مجموعہ ہے جسے الفرقان ٹرسٹ نے ترجمہ کرواکربڑے عمدہ انداز میں شائع کیا ہے یہ مجموعہ درج ذیل اہم موضوعات پر مشتمل ہے ۔اسلام میں سنت کا مقام،ممنوع ومشروع تبرک،برکات کا حصول،تعویذاو...
اسلامی تہذیب شائستگی اور وقار کی حامل ہے ۔ایک مسلمان شعوری طور پر مسلمان بھی ہو اور پھر وہ کسی کے خلاف تہذیب حرکت کا ارتکاب کر ے یہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ہونا چاہیے۔دور حاضر میں مسلمانوں کی اکثریت مغربی ممالک کی اس حوالے سے بہت تعریف کرتی ہے کہ ان کےہاں گلیاں ،سرکیں اور دکانیں وغیرہ بہت صاف ہوتی ہیں اور وہ لوگ ایک دوسرے پر کوئی اعتراض اورایک دوسرے کوروک ٹوک نہیں کرتے لیکن وہ ایمان جیسی عظیم نعمت سے محروم ہیں ۔ فرمان نبوی کے مطابق کے 60یا70 سے زیادہ شاخیں ہیں ۔ جن میں افضل شاخ توحید کا اقراراور اس کی ادنی ٰ شاخ رستے سےتکلیف دینے والی چیز کا ہٹا دینا ہے ۔زیرنظرکتابچہ’’ایمان کی ادنی ٰ شاخ راستے سےتکلیف داہ چیز کا ہٹا دینا‘‘ میں محترمہ ام عبد منیبہ صاحبہ نے ایمان کی ادنیٰ شاخ کو موضوع بحث بناتے ہوئے بڑے عام انداز میں اس فرمان نبوی ’’الایمان بضع وسبعون او بضع ستون......
اس دنیا میں سب سے قیمتی دولت ایمان ہے ۔ اس کی حفاظت کے لیے ہجرت تک کو مشروع قرار دیا گیا ہے ۔ یعنی اگر گھر بار ، جائیداد ، رشتہ داری ، دوست واحباب، کاروبار، بیوی ، بچے سب کچھ چھوڑنا پڑے تو چھوڑدیا جائے مگر ایمان کو نہ چھوڑا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے بہت سے مقامات پر کامیابی کامعیار ایمان اور عمل صالح کو قرار دیا۔ ایمان کی حقیقت کوسمجھنا ہر مسلمان کے لیے انتہائی ضروری ہے اس لیے کہ جب تک ایمان کی حقیقت کو نہیں سمجھا جائے گا اس وقت تک اس کی بنیاد پر حاصل ہونے والی کامیابیوں کا ادراک نہیں ہو سکتا۔اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مومن کا ایمان کم اور زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ خود صحابہ کا بیان ہے کہ جب ہم رسول اکرم ﷺ کی مبارک محفل میں ہوتے تو ایمان میں اضافہ ہوتا جبکہ بیوی بچوں کے درمیان وہ کیفیت نہ ہوتی ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ایمانی کی کمزوریاں اور ان کاعلاج‘‘ محترم جناب ابوسعد احسان الحق شہباز ﷾ کی کاوش ہے انہوں نے عالم عرب کے ممتاز عالم دین الشیخ محمد صالح المنجد کی کتاب ’’ ظاہرۃ ضعف الایمان وعلاجہ ‘‘ سے استفادہ...
یہ چھوٹا سا کتابچہ محترم سلیم رؤف صاحب کے دیگر اصلاحی کتابچوں کی طرح روز مرّہ زندگی میں سرزد ہونے والی عملی کوتاہیوں، دین سے دوری، مغربیت اور مادہ پرستانہ ذہن کی اصلاح کیلئے نہایت سادہ، شستہ اور رواں واقعاتی اسلوب میں تحریر کی گئی ایک عمدہ کاوش ہے۔ چند صفحات پر مشتمل زیر تبصرہ کتابچہ کا موضوع خواتین کی بلا ضرورت شاپنگ ہے۔ دردمندانہ انداز میں لکھی گئی ایک خوبصورت اصلاحی تحریر ہے۔
تحمل؍الحلم (برداشت کرنا ) اللہ تعالیٰ اور انبیاء کرام کی صفت ہے۔اوریہ عقلمندی کی نشانی ہےمختلف ائمہ اور علماء عظام نےاس کی مختلف تعریفیں کیں ہیں۔ حدیث نبوی کے مطابق اپنے اندر تحمل پیدا کرنا نبوت کے چوبیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔قرآم وحدیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تحمل اور برداشت ،ٹھراؤ اور وقار، درحقیقت صبر کی ایک ذیلی قسم ہے ۔اگر انسان مصیبت کوبرداشت کرے ،شکوے شکایتیں زبان پر نہ لائے تو اسے بالعموم صبر کہا جاتا ہے۔اور اگر غضہ کی حالت میں انسان صبر سے کام لے تواسے تحمل کہتے ہیں۔جو شخص جس قدر برداشت کرنے کا عادی ہوگا تو لوگوں کےدلوں میں اسی قدر اس کی محبت اور وقار بڑھے گا۔ اور جو کوئی جس قدر عدم ِبرداشت کا شکار ہوگا تو وہ عزیز واقارب ،دوست واحباب سے محروم ہوتا جائے گا۔تحمل اور رواداری پُر...
ہندوستانی موضوعات پرلکھنے والے عہد وسطی کے عرب مصنفین ہندوؤں کو علم ودانش سے آراستہ قوم قرارد یتے ہیں۔ ان مصنفین نےہندو زندگی سے متعلق موضوعات پر بہت کچھ لکھا ہے۔عربوں نےقدیم ہندوستان کے بارے میں کیا اور کتنا لکھا یہ بتانا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ ان کی بہت سے اور بالخصوص معرکۃ الآراء کتابیں تنگ ذہن علماء کےتعصب ،بے اعتنائی ، باہمی مسلکی او رمذہبی نزاع اور دوسرے آسمانی حوادث کی نذر ہوگئی ہیں۔ مسلمانوں نےاپنے ابتدائی دور میں سندھ کو ایک نئی تہذیب او ر کلچر سے آشنا کیاتھا ۔ اس کی تفصیل مختلف مؤرخوں کے بیانات سے ملتی ہے۔ جناب خورشید احمد فاروق کی زیر کتاب ’’ برصغیر او رعرب مؤرخین‘‘ مختلف مؤرخوں کےایسے ہی بیانات کا مجموعہ ہے۔ نیزیہ کتا ب محمود غزنوی سے پہلے کے ہندوستان (نویں،دسویں صدی عیسوی) کے مذہب ، تمدن ، علوم ، تاریخ اور تجارت وغیرہ سے متعلق عرب مؤلفوں کے بیانات پر مشتمل ہے۔تاکہ اس سے وہ محققین مستفیض ہوسکیں جو یا تو عربی نہیں...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات دین ہے۔ دین اسلام میں انسانی زندگی کا ایسا کوئی مقام نہیں جس میں دین اسلام کی راہنمائی موجود نہ ہو۔ اسلام سے قبل عرب قبیلے مختلف اقسام کے تہوار اور میلے منعقد کرتے تھے۔ اسلام جہاں اپنے ماننے والوں کو مختلف احکامات کا پابند کرتا ہے وہاں دین اسلام نے مسلمانوں کے لیے عیدین کو بھی متعارف کروایا ہے جس میں مسلمان اللہ رب العزت کے آگے سر بسجود ہوتے ہوئے، شریعت کے قوانین کی خلاف ورزی کیے بغیر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ تاریخ اسلام میں نہ تو عید میلاد النبیؐ کا تصور ملتا ہے اور نہ ہی بسنت منانے کا، یہ ایک ایسی بدعات ہیں جن کی دین اسلام میں کوئی اصل نہیں۔ بسنت ایک خالصتاً ہندو انہ رسم ہے اور اس کے پیچھے ایک گستاخ اور بدبخت لڑکے کی یاد گیری کا عنصر واضح طور پر کار فرما ہے۔ زیر نظر کتاب"بسنت کیا ہے؟" مفتی ابو لبابہ شاہ منصور ایک تحقیقی رسالہ ہے جس میں مستند تاریخی شہادتوں اورہندو مصنفین کی تحریرات کے عکس کے ساتھ یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ بسنت ایک واقعتاً ہی ہندوانہ رسم ہے۔ اللہ تعالیٰ اہل اسلام کو اس جان لیوا رسم سے محفوظ فرمائے او...
انسانی فکر میں اختلاف اور طرز فکر میں تنوع کا ہونا ایک فطری بات ہے بلکہ کسی بھی معاشرے کی نشوونما اور ارتقاءکی بہت بڑی ضرورت ہے۔ جب کوئی قوم اس دنیا کے لئے مثبت رول ادا کرنے کے قابل ہوتی ہے تو یہی فکری تنوع اس معاشرے کا ایک اثاثہ ہوتا ہے۔لیکن جب یہی قوم اس عالم کے لئے ایک بوجھ بن جاتی ہے تو پھر یہی فکری تنوع ایسا اختلاف اختیار کرلیتا ہے کہ ان کا اپنا اثاثہ ان پر بوجھ بن جاتا ہے۔مغربی تہذیب جسے مسیحی بنیاد پرستی کا نام دیا جانا ،زیادہ صحیح ہوگا،قرون وسطی کی صلیبی جنگوں بلکہ اس سے بھی قبل اسلام اور عالم اسلام کے خلاف محاذ آراء رہی ہے۔جس نے تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف روپ دھارے ہیں۔البتہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مغربی تہذیب ہو یا مسیحی بنیاد پرستی ،اسلام اور اسلامی اقدار ان کا بنیادی ہدف رہے ہیں۔بنیاد پرستی عصر حاضر کا ایک سلگتا ہوا موضوع ہے،جس کی سرحدوں کا تعین کرنا ایک مشکل امر ہے۔ایک طبقہ کے لئے ایک رویہ اگر بنیاد پرستی ہوتا ہے تو دوسرے طبقہ کے لئے وہی رویہ جائز اور عین درست ہوتا ہے۔جبکہ ایک طبقہ ایسا بھی پایا جاتا ہے جوبنیاد پرستی کو کسی روئیے کے طور پ...
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اسے اچھائی اور برائی ،خیر وشر،نفع ونقصان میں امتیاز کرنے اور اس میں صحیح فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے ۔اچھے کام کرنے اور راہِ ہدایت کو اختیار کرنے کی صورت میں اس کے بدلے میں جنت کی نوید سنائی ہے ۔ شیطان اور گمراہی کا راستہ اختیار کرنے کی صورت میں اس کے لیے جہنم کی وعید سنائی ہے۔اللہ تعالیٰ نے راہ ہدایت اختیار کرنے کےلیے اپنے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا تاکہ انسانوں کو شیطان کے راستے سے ہٹا کر رحمٰن کے راستے پر چلائیں۔تاکہ لوگ اپنے آپ کو جہنم سے بچا کر جنت کا حق دار بنالیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ(سورۃ التحریم :6)’’اے ایمان والوں اپنے آپ کوجہنم کی آگ سے بچاؤ جس کاایدھن لوگ اورپھتر ہیں ‘‘اس لیے گھر کے ذمہ دار کی یہ ذمہ داری ہےکہ وہ اپنے گھر والوں کو ایسے اعمال کرنے کا کہےکہ جن کے کرنے سے جہنم کی آگ سے بچا جاسکے...
بچے اللہ کا عطیہ ۔ نرم ونازک ،پیارے ،معصوم ،دلکش ،ہنستے ،مسکراتے، خوشبوؤں اور محبتوں کی رونق ،کون سے والدین ہیں جو یہ نہیں چاہتے وہ سدا بہار رہیں مسکراتے رہیں نظر بد سے دور رہیں لکین اکثر اوقات والدین کی اپنی غفلت لاپرواہی یا بے سمجھی بچوں کے معذور یا بیمار بننے کا سبب بن جاتی ہے ۔فرمان نبوی ہے :’’ تم میں سے ہر ایک شخص ذمہ دار ہے اور اپنی رعیت کا جواب دہ ہے ، امیر اپنی رعیت کا جواب دہ ہے ۔ آدمی اپنے گھر والوں پر نگران ہے ، عورت اپنے خاوند کےگھر اور اس کی اولاد پر نگران ہے ۔غرض تم سے ہر شخص کسی نہ کسی پر ذمہ دار بنایا گیا ہے اور وہ اپنی رعیت کا جواب دہ ہے ‘‘۔بچوں کی نگرانی کاایک تقاضہ یہ بھی ہے ہ بچے کو جسمانی ،ذہنی اوراخلاقی بیماریوں سے دور رکھنے کی کوشش کی جائے ۔انسان کوجتنے تحفظات در کار ہیں ان میں سر فہرست صحت کا تحفظ ہے ماں کو چاہیے کہ بچے کی صحت بر قرار رکھنے والے اصول اور تدابیر سے آگا...
سلیم رؤف صاحب﷾ ایک معروف مبلغ اور داعی ہیں۔آپ نے تبلیغ دین کے لئےایک منفرد طریقہ اختیار کرتے ہوئے ہر موضوع کو کہانی کی شکل میں پیش کیا ہے اور بے شمار موضوعات پر لکھا ہے۔آپ نے کتابچوں کے نام بڑے پرکشش او ر جاذب نظر ہوتے ہیں،عنوان کو دیکھ کر انہیں پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔مثلا’’ ننھا مبلغ‘‘ ،’’ واہ رے مسلمان‘‘ ،’’ نایاب ہیرا‘‘ ،’’ شیطان سے انٹرویو‘‘ ،’’ بازار ضرور جاوں گی‘‘ اور ’’ اور میں مر گیا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔آپ کے یہ چھوٹے چھوٹے کتابچے عامۃ الناس میں انتہائی مقبول اور معروف ہیں۔ یہ چھوٹا سا کتابچہ’’ بھوک اور جھوٹ ‘‘ بھی محترم سلیم رؤف صاحب﷾ کے دیگر اصلاحی کتابچوں کی طرح روز مرّہ زندگی میں سرزد ہونے والی عملی کوتاہیوں، دین سے دوری، مغربیت اور مادہ پرستانہ ذہن کی اصلاح کیلئے نہایت سادہ، شستہ اور رواں واقعاتی اسلوب میں تحریر کی گئی ایک عمدہ کاوش ہے۔ چند صفحات پر م...
ازمنہ وسطی میں یورپ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا ۔ توہمات و خرافات اس کے دینی عقائد کی حیثیت رکھتے تھے ۔ پھر یکایک تاریخ کے افق پرنشاۃ ثانیہ کے دور کا آغاز ہوا ۔جس میں یورپ بیدار ہو گیا ۔ اس نے مذہبی توہمات کو دفن کر کے سائنس کو اپنا رہبر بنا لیا ۔ تاہم اس کےساتھ ساتھ مذہب کےخلا کو پرکرنے کے لیے الحاد کی طرف مائل ہوگیا ۔ یورپ میں عام طور پر یہ متصور کرایا جاتا ہے کہ اہل یورپ کی یہ بیداری کا سفر یونان سے شروع ہوا ۔ اور یونان سے یورپ اس شاہراہ پر گامزن ہوا ۔ اس دوران مسلمانوں کو تاریخ کے صفحات سے حذف کر دیا جاتا ہے ۔ زیرنظر کتاب اس اعتراض کو یا اس طرح دیگر اعتراضات کو رفع کرنے کے لیے خطبات کا ایک مجموعہ ہے جو محترم نو مسلم موصوف نے ریاض یونیورسٹی میں دیے تھے ۔ جن میں اسلام کی ابتدا سے لے کر چار سو تیس ہجری تک کے عربی زبان میں مختلف علوم و فنون کا ایک فاضلانہ جائزہ لیا گیا ہے ۔ چناچہ اس سلسلے میں اس کتاب کا مقصد قرآن ، حدیث ، تاریخ ، فقہ ، عقائد ، تصوف ، شاعری ، لغت ، نحو ، بلاغت ...
فقہ اسلامی کی اجمالی تاریخ اگرچہ عربی تاریخوں مثلا مقدمہ ابن خلدون اور کشف الظنون وغیرہ میں مذکور ہے،لیکن اس زمانے میں جو جدید فقہی ضروریات پیدا ہو گئی ہیں،ان کے لئے یہ اجمالی حالات واشارات بالکل ناکافی ہیں۔موجودہ حالات میں بہت سے معاملات کی نئی نئی صورتیں پیدا ہو گئی ہیں، اور ان معاملات کی بناء پر ایک جدید فقہ کو مرتب کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔اور یہ سوال پیدا ہو رہا تھا کہ آیا فقہ اسلامی ایک جامد چیز ہے ؟یا ہر زمانے کی ضروریات وحالات کے مطابق اس میں تغیر وتبدل ہوتا رہا ہے۔؟اس سوال کو حل کرنے کی سب سے پہلی ضرورت یہ تھی کہ فقہ اسلامی کے مختلف ادوار کی مفصل تاریخ مرتب کی جائے،اور ہر دور تغیرات،انقلابات،خصوصیات اور امتیازات نہایت تفصیل سے دکھائے جائیں اور ان کے علل واسباب کی تشریح کی جائے ۔ زیر تبصرہ کتاب "تاریخ فقہ اسلامی" عالم اسلام کے معروف عالم دین اور مجتہد علامہ محمد الخضری کی عربی تصنیف "تاریخ التشریع الاسلامی" کا اردو ترجمہ ہے۔جس پر مترجم کا نام موجود نہیں ہے۔مولف موصوف نے فقہ اسلامی کی تاریخ کو چھ ادوار پر تقسیم کیا ہے...
سورہ نور قرآن مجید کی 24 ویں سورت جو مدنی سورتوں میں سے ہے اور قرآن مجید کے 18 ویں پارے میں واقع ہے۔ اس سورت کا مرکزی موضوع معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی کو روکنے اور عفت وعصمت کو فروغ دینے کے لئے ضروری ہدایات اوراحکام دینا ہے۔ اس سورت کی آیات :۱۱تا ۲۰ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی براءت کا اعلان کرنے کے لئے نازل ہوئیں ،او رجن لوگوں نے تہمت لگانے کا گھناؤناجرم کیا تھا،ان کو اور معاشرے میں عریانی وفحاشی پھیلانے والوں کو سخت عذاب کی وعیدیں سنائی گئی ہیں ۔ نیز عفت وعصمت کی حفاظت کے پہلے قدم کے طور پر خواتین کو پردے کے احکام بھی اسی سورت میں دئے گئے ہیں اور دوسروں کے گھر جانے کے لئے ضروری آداب واحکام کی وضاحت بھی فرمائی گئی ہے ۔ زیر نظر کتاب’’تحفظ سماج‘‘ محترمہ بشری نوشین (پی ایچ ڈی سکالر) کی کاوش ہے مصنفہ نے اس کتاب میں آسان فہم انداز میں سورۃ النور کی روشنی میں احکاماتِ معاشرت کو ایک اچھوتے او رعوامی انداز میں پیش کیا ہے۔تحریر سماجی ومعاشرتی امثال سے بھی م...
ایک اسلامی معاشرہ اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک اس کے بااثر افراد، تعلیم یافتہ لوگ، دانشور، ماہرینِ تعلیم، فوجی و پولیس افسران، سیاست دان، جج اور وکلاء وغیرہ شعوری ایمان کے ساتھ قرآن مجید، احادیث رسول ﷺ اور دیگر اسلامی علوم سے وابستگی نہ کریں، اسلام اور قانونِ شریعت کی حقانیت کے قائل ہونے کے ساتھ ساتھ، دنیا اور آخرت میں اللہ کی پکڑ کے خوف سے لرزاں نہ ہوں، یعنی قیادت ایسی ہو جو شعور عصر حاضر کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم، وحی اور قرآن و سنت پر راست اور گہری نظر رکھتی ہو۔ لہذا جو شخص بھی دعوت و تبلیغِ اسلام اور اقامت دین کا پیغمبرانہ مشن اختیار کرنا چاہتا ہے اس کے لیے لازمی ہے کہ وہ قرآن سیکھے اور دعوت و تبلیغ کے ہر ہر مرحلے میں اس سے مستفید ہو۔ مولانا ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ کی زوجہ محترمہ امّ عدنان بشریٰ قمر صاحبہ نے زیر نظر کتاب ’’تحفۃ الواعظات ‘‘ میں اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں چند عنوانات کو قرآن و سنت کی روشنی میں آسان فہم انداز میں پیش کیا ہے۔(م۔ا)