توحید کا معنی ہے کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ حق باری تعالیٰ اپنی ذات، صفات اور جُملہ اوصاف و کمال میں یکتا و بے مثال ہے۔ اس کا کوئی ساتھی یا شریک نہیں۔ کوئی اس کا ہم پلہ یا ہم مرتبہ نہیں۔ صرف وہی با اختیار ہے۔ اس کے کاموں میں نہ کوئی دخل دے سکتا ہے، نہ اسے کسی قسم کی امداد کی ضرورت ہے۔ حتیٰ کہ اس کی نہ اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہواہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اَللّٰہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ ڏ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ کہو کہ وہ (ذات پاک ہے جس کا نام) اللہ (ہے) ایک ہے۔معبود برحق جو بےنیاز ہے۔نہ کسی کا باپ ہے۔ اور نہ کسی کا بیٹا۔ اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔(سورۃالاخلاص)علامہ جرجانی ؒ توحید کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں :توحید تین چیزوں کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی پہچان اس کی وحدانیت کا اقرار اور اس سے تمام شریکوں کی نفی کرنا۔ (التعریفات73) توحید کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق صرف اللہ تعالیٰ ہی کیلئے خاص رکھے جائیں۔ زیر تبصرہ کتاب" وجود باری تعالی اور توحید &quo...
وجود باری تعالی فلسفہ، سائنس اور مذہب تینوں کا موضوع رہا ہے۔ عام طور اصطلاح میں اُس علم کو الہیات (Theology) کا نام دیا جاتا ہےکہ جس میں خدا کے بارے بحث کی گئی ہو۔ اس کتاب میں ہم نے فلسفہ ومنطق، سائنس وکلام اور مذہب وروایت کی روشنی میں وجود باری تعالی کے بارے میں بحث کی ہے۔ وجود باری تعالی کے بارے بڑے نظریات (mega theories) چار ہیں۔ نظریہ فیض، نظریہ عرفان،نظریہ ارتقاء اور نظریہ تخلیق۔ یہ واضح رہے کہ چوتھے نقطہ نظر کو ہم محض اس کی تھیورائزیشن کے عمل کی وجہ سے تھیوری کہہ رہے ہیں کہ اب اس عنوان سے نیچرل اور سوشل سائنسز میں بہت سا علمی اور تحقیقی کام منظم اور مربوط نظریے کی صورت میں سامنے آ رہا ہے جبکہ حقیقت کے اعتبار سے یہ محض تھیوری نہیں بلکہ امر واقعی ہے۔ پہلا اور دوسرا نقطہ نظر فلاسفہ کا ہے کہ جو افلاطونی، نوافلاطونی، مشائین، اشراقین، عرفانیہ اور حکمت متعالیہ میں منقسم ہیں۔ افلاطونی اور مشائین کے علاوہ بقیہ کے ساتھ صوفی ہونے کا ٹیگ بھی لگا ہوا ہے دراں حالانکہ یہ صوفی کی بجائے دراصل افلاطونی، مشائی اور نوافلاطونی ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی گروہ وجود باری تعا...
اللہ رب العزت کے ہم پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار احسانات ہیں جن میں سے سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ ہماری دنیا وآخرت کی ہر قسم کی اصلاح وفلاح اور نجات کے لیے نبوت ورسالت کا ایک مقدس اور پاکیزہ سلسلہ شروع کیا جس کی آخری کڑی جناب محمد کریمﷺ ہیں۔ ہمارے نبیﷺ کو ایک جامع اور مکمل شریعت دے کر مبعوث فرمایا اور ہمارے فائدے کے لیے آسمان وزمین ‘پہاڑ‘ پرندے‘ جانور الغرض ہر ضروریات زندگی کو وجود بخشا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کائنات وجود میں تو آ گئی ہے مگر آئی کیسے؟ اس کے لیے زیر تبصرہ کتاب اپنے موضوع پر تفصیلاً کتاب ہے۔ یہ کتاب ’’قصۃ الخلق‘‘ جو کہ عربی زبان میں تھی کا اردو ترجمہ’’ کائنات کیسے وجود میں آئی‘‘ کے نام سے ہے اس میں مصنف نے قرآن کریم وصحیح احادیث نبویہﷺ کی روشنی میں کائنات کی تخلیق اور اس کے عدم سے وجود میں آنے کے حالات پر تفصیل سے کلام کیا ہے‘ نیز اس میں زمین وآسمان کی پیدائش‘ جنت ودوزخ‘ ملائکہ‘ ابلیس‘ جنات‘ لوح محفوظ وغیرہ کی تخلیق ان ک...
ادب ہر کام کے حسن کا نام ہے اور سایۂ ادب میں جو الفاظ نکلیں وہ جادو سے زیادہ اثر رکھتے ہیں کیونکہ ادب ایک روشنی ہے جس سے زندگی کی تاریکیاں ختم ہوتی ہیں ۔ ادب ایک الۂ اصلاح ہے جس سے زندگی کی نوک پلک سنور تی ہے ۔ ادب ایک دوا ہے جس سے مزاج کے ٹیڑھے پن کا مکمل خاتمہ ہوتا ہے، ادب ایک جوہر ہے جس شخصیت میں پختگی آتی ہے اور ادب ایک ایسا آب حیات ہے کہ جو جی بھر کر پی لے وہ زندگی کاسفر کامیابی سے کرتے ہوئےپیاس محسوس نہیں کرتا ، بلکہ تروتازہ چہرہ لےکر اپنے خالق ومالک کے حضور پیش ہوجاتا ہے۔لیکن آج لوگ دنیا کے ااقتدار کی توبہت فکر کرتے ہیں مگر ذاتِ الٰہ کی فکر سے غافل ہیں ۔اپنے آداب کےلیے ہزاروں جتن ہوتے ہیں مگر شہنشاہ کائنات کے آداب کوبروئے کار لانے کےلیے حددرجہ غفلت کی جاتی ہے اورتاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب خودی کوخالق کےآداب پرمقدم کردیا جائے تو تباہی وبربادی کےسیلاب سے بچنا مشکل ہی نہیں بسا اوقات ناممکن ہوجاتاہے بعینہ یہی کیفیت آج امت مسلمہ کی ہے ۔کسی کے دربار میں بغیر آداب کے رونا فضول ہے تو پھر شہنشاہ کائنات کے سامنے آداب کاخیال رکھنا کس قدر ضروری ہے۔ انسانیت ک...