اللہ رب العزت کے ہم پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار احسانات ہیں جن میں سے سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ ہماری دنیا وآخرت کی ہر قسم کی اصلاح وفلاح اور نجات کے لیے نبوت ورسالت کا ایک مقدس اور پاکیزہ سلسلہ شروع کیا جس کی آخری کڑی جناب محمد کریمﷺ ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپﷺ کو کامل واکمل شریعت دے کر مبعوث فرمایا اور ایسی شریعت جو قیامت تک کے لیے ہے کیونکہ نبیﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آنا اور نبوت کا سلسلہ نبیﷺ پر آ کر ختم ہو گیا ہے لیکن نبیﷺ نے اپنی زندگی میں ہی یہ پشین گوئی فرما دی تھی کہ میرے بعد کچھ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے بھی ہوں گے ۔ زیرِ تبصرہ کتاب خاص انہی لوگوں پر تصنیف کی گئی ہے جنہوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا۔ اس کتاب میں ستر کے قریب لوگوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا اور ان کے نبوت کے دعویٰ کی وجوہات اور ان کے حالات وغیرہ کو تفصیلاً ذکر کیا گیا ہے۔ کتاب کی ترتیب نہایت عمدہ ہے اور اسلوب بھی دلکش ہے اس کے مطالعے سے بوریت کا احساس نہیں ہوتا۔ اور حوالہ جات دیے تو گئے ہیں مگر ناقص حوالہ جات ہیں یعنی صرف اصل مصدر کا نام ذکر...
فتنہ انکار حدیث تاریخ اسلام میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں خوارج اور معتزلہ نے پیدا کیا۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں سنت رسول ﷺ حائل تھی۔ لہذا نہوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دوگونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کا مسئلہ یہ تھا کہ یونانی فلسفے نے اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے جو شکوک و شبہات عقل انسانی میں پیدا کر دیے تھے، وہ انہیں سمجھنے سے پہلے ہی حل کر دینا چاہتے تھے لہذا انہوں نے فلسفہ کے نام سے منقول ہر بات کو عقل کا لازمی تقاضا سمجھا اور اسلامی عقائد اور اصول و احکام کی ایسی تعبیر کرنا شروع کر دی جو ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو۔آج بھی بعض لوگ سرسری طور پر حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں اور جب انہیں کسی حدیث کے معنی سمجھ میں نہیں آتے تو وہ جھٹ سے اسے قرآن مجید کے کی خلاف یا دو صحیح احادیث کو متصادم قرار دے کر باطل ہونے کا فتوی دے دیتے ہیں،جو جہالت اور انکار حدیث کی سازش کا ہاتھ بٹانے کے مترادف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " مقالم رس...